تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

فانیؔ بدایونی: عشق میں ناکامی سے درماندگی تک

فانیؔ کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانی کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔

ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر دراصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔

کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔

فانیؔ کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصلِ مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جب کہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت 1920ء سے شروع ہوئی اور 1930ء میں عروج کو پہنچ گئی۔

فانیؔ پُر گو نہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔

فراقؔ نے ان کی تصویر کے متعلق کہا ہے کہ ’’شاید ہی کسی شاعر کی تصویر میں اتنی نشتریت ہو۔‘‘ ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی ایک انفرادیت تھی۔ آواز بلند نہ تھی مگر اس میں لحن بھی تھا اور سوز بھی۔ میں نے آگرے کے ایک مشاعرے میں انہیں پڑھتے سنا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ ان کی آواز نشتر کی طرح دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کی غالباً آخری غزل بھوپال کے مشاعرے کی تھی جو نشر ہوئی تھی۔ یہ غزل اس وقت ذہن میں محفوظ رہ گئی تھی اور آج تک ہے۔ فراقؔ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

جب پرسشِ حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
کچھ یوں بھی زباں نہیں کھلتی کچھ درد سوا ہو جاتا ہے

یکتائے زمانہ ہونے پر صاحب یہ غرور خدائی کا
سب کچھ ہو مگر خاکم بدہن کیا کوئی خدا ہوجاتا ہے

اب خیر سے ان کی بزم کا اتنا رنگ تو بدلا میرے بعد
جب نام مرا آجاتا ہے، کچھ ذکرِ وفا ہو جاتا ہے

پھر دل سے فانیؔ سارے کے سارے رنج و الم مٹ جاتے ہیں
جس وقت وہ ظالم سامنے آکر جانِ حیا ہوجاتا ہے

مطلع میں فانیؔ کے مزاج کی سچی تصویر ملتی ہے۔

فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمائش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے۔

اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب
درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرُ القادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے۔

پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست
مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

تو کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرعے کا جواب کہاں

دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں تو تعجب کی بات نہ ہو گی۔

1922ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمائش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامنِ اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجیے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔

(جدید اردو تنقید کے لیے ممتاز آل احمد سرور کے مضمون فانی شخصیت اور شاعری سے اقتباسات، سرور خود بھی شاعر تھے جن کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری ملتی ہے)

Comments

- Advertisement -