تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

بحیرۂ اسود اور پانچ تاریخی شہر

مشہور سیاحوں اور اہلِ قلم کے سفر ناموں کے رسیا، سیر و سیاحت اور دنیا کے بارے میں معلومات کا شوق رکھنے والوں نے اِن پانچ شہروں کا نام ضرور سنا ہوگا جو بحیرۂ اسود (Black Sea) کے کنارے آباد ہیں۔

بحیرۂ اسود کے ساتھ ساحل پر یوں تو کئی ممالک کے اہم تجارتی اور ثقافتی شہر آباد ہیں لیکن ان میں بعض کئی سو سال قدیم اور تاریخی حیثیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے بعض جدید دور میں بھی بسائے گئے ہیں اور آج کسی نہ کسی اعتبار سے شہرت رکھتے ہیں۔ یہ ایسے ہی پانچ اہم اور قدیم شہروں کا تذکرہ ہے۔

باتومی
یہ جارجیا کا دوسرا بڑا شہر اور تجارت کے لیے اہم بندرگاہ ہے۔ یہ شہر سیاحت کے لیے مشہور ہے جب کہ اس کی ایک وجہِ شہرت یہاں کے جواری ہیں۔ یہ شہر قدیم یونان کی نوآبادی ’’کولکِس‘‘ کا حصہ تھا۔ رومی بادشاہ ہاڈریان (117ء تا 138ء) کے دور میں شہر کے گرد فصیل قائم کی گئی جب کہ جسٹینین اوّل کے دور میں جب ایک اور شہر پیٹرا کو قلعہ نما شکل دی گئی تو شہر بے آباد سا ہو گیا۔ بعد میں اسے مسلمانوں نے فتح کرلیا۔ اس وقت یہ بازنطینی افواج کے قبضے میں تھا۔ گیارہویں صدی میں اس شہر کو جارجیائی سلطنت میں شامل کرلیا گیا۔ پندرہویں صدی میں عثمانی ترک کچھ عرصہ قابض رہنے کے بعد واپس ہوئے اور ایک صدی بعد دوبارہ آئے۔ یہاں جارجیائی افواج سے معرکہ میں عثمانی ترکوں نے انھیں شکست دی۔ تاہم بعد میں جارجیائی متعدد بار حملہ آور ہوئے اور قبضہ کرنے میں کام یاب بھی ہوئے۔ آخر کار 1723ء میں یہ شہر باقاعدہ طور پر سلطنتِ عثمانیہ کا حصّہ بن گیا۔ 1877-78ء میں روس ترک جنگ کے بعد یہ ترکوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور سلطنتِ روس کا حصہ بن گیا۔ 1918ء میں پہلی عالمی جنگ کے اختتامی دنوں میں اس شہر دوبارہ عثمانیوں کا قبضہ ہوگیا۔ بعد میں کمال اتاترک نے اس شرط پر یہ شہر سوویت یونین کے بالشوویکوں کے حوالے کیا کہ وہ اسے خودمختاری دیں گے تاکہ یہاں کی مسلم آبادی محفوظ رہے۔ 1989ء میں جب جب جارجیا نے سوویت یونین سے آزادی حاصل کی تو یہ جارجیا کا حصّہ بن گیا۔

بورگاس
بورگاس بلغاریہ کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ یہ علاقہ قدیم ترین آبادی رہا ہے اور ماہرین کے مطابق یہاں انسانی آبادیوں کے تقریباََ 3 ہزار سال پرانے آثار ملتے ہیں۔ آج بھی یہ ایک اہم صنعتی، ثقافتی اور سیاحتی مرکز ہے۔ اس شہر میں خطے کی سب سے بڑی آئل ریفائنری ہے۔ قدیم دور میں اس کی اہمیت کی بڑی وجہ اس کے زرخیز میدان رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق بازنطینی دور میں یہ شہر بحیرۂ اسود کی اہم بندرگاہ تھا۔ بلغاریہ کے دوسرے علاقوں کی طرح چودہویں صدی کے اواخر میں عثمانیوں نے اسے بھی فتح کر لیا لیکن سلطنت عثمانیہ میں خانہ جنگی کے دوران یہ بازنطینیوں کے پاس چلا گیا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں یہاں ڈاکوؤں نے اتنی بار حملہ کیا کہ یہاں کے باسی جان و مال کے عدم تحفظ کا شکار ہوکر نقل مکانی کرنے لگے تھے۔ تاہم کچھ عرصہ بعد یہ سلسلہ رک گیا اور شہر دوبارہ معاشی اہمیت اختیار کر گیا۔ 1890ء میں یہاں ریلوے لائن بچھائی گئی اور 1903ء میں گہرے پانیوں کی بندرگاہ قائم کی گئی۔ آج یہ بلغاریہ کے اہم معاشی مراکز میں سے ایک ہے۔

اوڈیسا
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ہورہی ہے۔ یوکرین میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ اوڈیسا اسی ملک کا آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہ بحیرۂ اسود کے شمال مغربی ساحل پر واقع ہے۔ یہ ایک بندرگاہ ہونے کے علاوہ سیاحتی مقام بھی ہے۔ اس شہر کو بحیرۂ اسود کا موتی بھی کہا جاتا ہے۔ اس مقام پر قدیم یونانی دور میں آبادیاں قائم تھیں۔ اس کے نزدیک پندرہویں صدی کی تاتاری آبادی کے آثار بھی دریافت ہوچکے ہیں۔ باقاعدہ شہر کی بنیاد روس کی ملکہ کیتھرین اعظم کے حکم پر 1794ء میں رکھی گئی تھی۔ انیسویں صدی میں اوڈیسا روسی سلطنت کا چوتھا بڑا شہر رہا ہے۔ یہاں سوویت یونین کے دور میں بحریہ کا اڈہ بھی قائم تھا۔ اس شہر کی اکثریت یوکرینی ہے جب کہ روسی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔

استنبول
استنبول ترکی کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ ملک کا معاشی، ثقافتی اور تاریخی مرکز ہے۔ یہ براعظم ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کی بنیاد 660 قبل مسیح میں رکھی گئی اور جلد ہی یہ ایک اہم شہر کی شکل اختیار کر گیا۔ 330 قبل مسیح میں قسطنطنیہ کے نام سے اس شہر نے اپنی پہچان بنائی اور پھر 16 صدیوں تک مختلف سلطنتوں کا دارالحکومت رہا۔ رومی اور بازنطینی دور میں مسیحیت کے پھیلاؤ میں اس شہر کا اہم کردار رہا۔ مخصوص جغرافیائی نوعیت کے باعث اس پر قبضہ کرنا آسان نہ تھا۔ 1453ء میں 21 سالہ عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کر لیا۔ عثمانیوں نے شہر کو اپنی سلطنت کا مضبوط گڑھ بنایا۔ آج بھی یہ دنیا کے مشہور ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

کونسٹانٹا
یہ رومانیہ کا سب سے قدیم شہر ہے جو آباد ہوا۔ محققین کے مطابق اس کی بنیاد ملکہ ٹومیریس نے رکھی تھی۔ پانچویں صدی کے بعد یہ شہر مشرقی رومی سلطنت کا حصہ بن گیا ۔ یہ سیکڑوں برس تک سلطنت بلغاریہ کا حصہ رہا اور پھر عثمانیوں نے 1419ء کے لگ بھگ اسے فتح کر لیا۔ 1817ء میں رومانیہ کی جنگ آزادی کے بعد یہ سلطنت عثمانیہ سے رومانیہ کے پاس چلا گیا اور ملک کی اہم ترین بندرگاہ اور برآمدی مرکز بن گیا۔

Comments

- Advertisement -