اشتہار

دربان اور قاضی (ترکی کی لوک کہانی)

اشتہار

حیرت انگیز

پرانے زمانے میں ترکی میں ایک کسان تھا جس کا نام عبدل تھا۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی مگر اس زمین سے اس کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کی بیوی نے دو بھینیسں رکھی ہوئی تھیں، وہ ان کا دوودھ نکالتی اور دودھ سے گھی، مکھن اور پنیر بناتی۔ کسان یہ دودھ اور پنیر شہر لے جاتا اور وہاں سے اس کے بدلے شہد خرید لاتا۔ گاؤں میں شہد کی بہت مانگ تھی، واپس آکر وہ شہد بیچ کر رقم حاصل کر لیتا تھا۔

کچھ عرصہ سے مسئلہ یہ ہورہا تھا کہ جب وہ اپنا سامان لے کر شہر کے دروازے پر پہنچتا تو وہاں‌ کا دربان روک لیتا کہ قاضی کے اجازت نامے کے بغیر تم شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایک مرتبہ عبدل مکھن اور پنیر کے برتن لے کر شہر پہنچا تو دربان نے اسے روک لیا کہ تم قاضی کی اجازت کے بغیر شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔

عبدل نے اس کی بہت منت سماجت کی مگر دربان نے شہر میں داخل ہونے نہ دیا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد عبدل نے کہا کہ دربان بھائی تم ایسا کرو ان برتنوں میں سے ایک برتن تم رکھ لو۔ دربان کو برتن میں سے تازہ پنیر کی مہک آرہی تھی، اس نے برتن رکھ لیا اور عبدل کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ عبدل کا مال جلد ہی بک گیا، اس نے اس رقم سے شہد خریدا اور واپس گاؤں کو چل دیا۔ اس مرتبہ شہر کے دروازے پر اسے پھر دربان نے روک لیا اور کہا کہ قاضی کی اجازت کے بغیر باہر نہیں جا سکتے۔ چنانچہ عبدل نے دربان کو شہد سے بھری بوتل پیش کی۔ تب دربان نے اسے شہر سے باہر جانے دیا۔ گھر آ کر عبدل سوچتا رہا کہ اگر ایسے ہی دربان کو رشوت دیتا رہا تو بہت نقصان ہو جائے گا، اگلے دن وہ سیدھا قاضی کے پاس پیش ہو گیا تاکہ اجازت نامے کی درخواست کرے اور دربان کو رشوت دینے سے اس کی جان چھوٹ جائے۔ مگر قاضی اپنی کتابوں میں ایسے گم ہو گیا، جیسے اس کے سامنے کوئی موجود ہی نہ ہو۔ کچھ دیر بعد اس نے عبدل کو دیکھا اور کہا آج وقت نہیں ہے کل آنا۔ اگلے روز عبدل پھر پیش ہوا مگر قاضی نے اسے پھر ٹال دیا۔ عبدل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا نیک دل قاضی ایسا کیوں کر رہا ہے۔

- Advertisement -

راستے میں اسے ایک بزرگ ملے انہوں نے بتایا کہ اس شہر کا حاکم بدل گیا ہے اور اب نئی تنظیم کے بعد کوتوالی، محافظ اور قاضی سمیت سب محکموں میں نئے منصب دار آگئے ہیں، اب رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، تم قاضی صاحب کو جا کر نذرانہ پیش کرو گے تو تب تمہارا کام ہو جائے گا۔ عبدل کو یہ جان کر بڑا رنج ہوا اور اسے غصّہ بھی آیا کہ وہ اور اس کی بیوی محنت کرکے یہ سب حاصل کرتے ہیں اور وہ سڑکوں بازاروں پر پیدل پھر کر رقم جمع کرتا ہے جس میں سے یہ لوگ رشوت چاہتے ہیں۔ اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد پنیر کے ایک برتن میں گوبر بھر لیا مگر اوپر کی تھوڑی سی جگہ خالی رکھی۔ اس پر اس نے پنیر ڈال دیا، دیکھنے سے یوں لگ رہا تھا جیسے سارا برتن پنیر سے بھرا ہوا ہے۔ اگلے دن وہ برتن لے کر قاضی کی خدمت میں پیش ہو گیا کہ حضور یہ ہمارے علاقے کی خاص سوغات ہے آپ اسے قبول فرمائیں۔

قاضی نے اس روز کچھ دیر نہ لگائی اور برتن لے کر ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا تمہاری درخواست کہاں ہے؟ عبدل نے درخواست سامنے رکھی تو قاضی نے اسے منظور کر کے اجازت نامے پر اپنی مہر ثبت کر دی۔ عبدل نے اجازت نامہ جیب میں رکھا اور پوچھا کہ حضور کیا پنیر لیے بغیر آپ میری درخواست پر دستخط نہیں کر سکتے تھے؟

قاضی نے کہا تمہارا کام ہو گیا، اب گھر جاؤ اور یاد رکھو معاملے کی گہرائی میں کبھی نہیں جانا چاہیے۔ عبدل نے قاضی کے دفتر سے باہر قدم رکھا اور اونچی آواز میں بولا: قاضی صاحب آپ بھی برتن کی گہرائی میں نہ جائیے گا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں