تازہ ترین

صدیوں پرانی داستانوں‌ کے کردار آج بھی ‘زندہ’ ہیں!

ساری دنیا کے ادب کی بنیاد لوک ادب ہے۔ لوک گیت اور کہانیاں صدیوں سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ یہ داستانیں ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہی ہیں اور بہت بعد میں‌ انسان نے تحریری شکل میں‌ محفوظ کیا۔ آج ہمارے پاس کئی کتابیں‌ ہیں جن میں دنیا بھر کی قدیم لوک کہانیاں اور ایسی داستانیں محفوظ ہیں جو مختلف ادوار میں‌ مشہور ہوئیں۔

لوک کہانیاں چاہے مغرب کی ہوں یا مشرق کی، ان سب میں جنوں، بھوتوں اور پریوں کے قصے، خیر اور شر کی کشمکش اور انجام کے علاوہ نیکی اور بدی کے دیوتاؤں کے مابین تصادم کی داستانیں شامل ہیں۔ یہ لوک ادب بچوں کو بالخصوص حق اور سچ کے لیے، برائی سے نفرت اور بدی کی طاقت کو انجام تک پہنچانے کے لیے جان کی بازی لگا دینے والے سورماؤں اور بہادروں سے واقف کراتا ہے۔ ان کہانیوں میں پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندر کی گہرائی ان کرداروں کی راہ میں زیادہ دیر حائل نہیں رہتے اور ثابت قدمی اور لگن سے جیت کا پیغام دیتی ہیں۔ ان کتھاؤں کی بنیاد سچائی اور انسان دوستی ہوتی ہے۔

آج دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہوں کے نام اور ان کی عظیم الشان اور وسیع سلطنت کے تذکرے تاریخ کی کتابوں میں بند ہیں، لیکن لوک کہانیوں کے نیک اور رحم دل بادشاہ اور سورما ان گنت لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں جو لوک ادب کا کمال ہے۔کسی بھی علاقے یا ملک کی لوک کہانیوں کو سمجھنے کے لیے اس علاقے کے رسم و رواج، تاریخ و ثقافت، سماج اور مذہب کو سمجھنا پڑتا ہے۔ لوک کہانیوں میں سب سے زیادہ جادوئی، سحر میں جکڑنے والی الف لیلہ ہزار داستان ہے۔ یہ لوک کہانیوں کا سب سے ضخیم ترین مجموعہ ہے۔ عرب دنیا کی الف لیلہ کی ہر کہانی داستان گوئی کا ایک شاہکار ہے اور ہر ملک کی زبان میں‌ ترجمہ ہوکر مقبول ہوئی ہے۔

الف لیلہ کی پہلی کہانی کا آغاز بادشاہ شہریار اور اس کے بھائی شاہ زمان سے ہوتا ہے۔ اس کا سب سے اہم اور کلیدی کردار ملکہ شہر زاد ہے۔ شہر زاد ہر روز بادشاہ کو ایک نئی کہانی سُنا کر اپنی موت کے آخری فرمان کو ٹالتی ہے۔ اس کی ہر کہانی منفرد نوعیت کی ہوتی ہے۔ ان میں جنوں، بھوتوں، پریوں سمیت ہر شعبے کے لوگوں کا ذکر ہوتا ہے اور یہ سب نہایت دل چسپ اور تحیر خیز ہوتا ہے جو بادشاہ کو گویا اس کے ارادے سے باز رکھتا ہے۔ اسی طرح الہ دین کی کہانی نے جادوئی چراغ کے جن کو اس قدر مقبولیت عطا کی کہ آج تک اس پر کئی فلمیں، ڈرامے اور کارٹون بن چکے ہیں۔ علی بابا کا کردار اور چالیس چوروں کی کہانی بھی ایک خوب صورت ماجرا ہے جسے آج بھی نہایت دل چسپی اور شوق سے پڑھا اور دیکھا جاتا ہے۔ یہ لالچ کے مقابلے میں‌ خیر کی ایک داستان ہے۔

لوک کہانیاں چھوٹے بچوں یا نوعمروں کے لیے تو دل چسپی کا باعث ہوتی ہی ہیں، لیکن بڑے بوڑھے بھی ان میں‌ کم دل چسپی نہیں‌ لیتے۔ یہ وہ ادب ہے جو ہر معاشرے میں اور ہر طبقہ ہائے سماج میں‌ سب سے زیادہ مقبول ہوتا ہے۔

Comments

- Advertisement -