تازہ ترین

غزہ ڈیتھ زون بن گیا

سات اکتوبر سے جاری حماس اور اسرائیل کی جنگ کے بعد غزہ میں خوراک، ایندھن اور ادویات سمیت دیگر ضروریات زندگی کی قلت نے حالات کو سنگین بنا دیا ہے جس کے بعد غزہ دیتھ زون بن گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے دوران خوراک کی قلت ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے یکم دسمبر کو ایک ہفتہ طویل جنگ بندی کے خاتمے کے بعد دوبارہ سے شروع ہونے والی شدید لڑائی کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید سنگین اختیار کر گیا ہے۔

غزہ میں جنگ کی وجہ سے تباہ حال شہری آبادی کو جان کے لالے پڑ چکے ہیں، ایک طرف والدین اور بچے اپنے پیاروں کو  اسرائیل کی جانب سے جاری بمباری میں شہید ہوتے دیکھ رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے پیاروں کو بھوک سے مرتا دیکھنے پر مجبور ہیں۔

امدادی ٹرکوں کی تعداد میں کمی

اس حوالے سے اقوام متحدہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ جنگ زدہ غزہ میں خوارک، ایندھن اور پینے کا صاف پانی خطرناک حد تک کم ہورہا ہے، کئی خاندان سمندر کا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں، ساتھ ہی روٹی پکانے کے لیے لوگ ایندھن کے طور پر قبرستان کے درخت کاٹ رہے ہیں تاکہ اس سے آگ جلائی جا سکے۔

اقوام متحدہ کے ریلیف کے ادارے کے سربراہ مارٹن گرفتھس نے خبردار کیا تھا کہ غزہ میں بسنے والے لاکھوں شہریوں کے لیے روزانہ خوراک، پانی اور طبی امداد کی اشیا سے لدے 100 ٹرک درکار ہیں، لیکن یکم دسمبر کو 7 دن کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد لڑائی میں شدت کی وجہ سے امداد ٹرکوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے غذائی قلت کا مسئلہ مزید بڑھ گیا ہے۔

اپنی ہی سر زمین پر غیر محفوظ، اسرائیلی حملوں سے خوف زدہ بھوکے پیاسے شہری اقوام متحدہ کے گودام سے آٹا،گندم اور کھانے پینے کی اشیا کے تھیلے اٹھاکر لے گئے کیوں کہ بھوک گولہ باری سے کم جان لیوا نہیں ہے، رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی خوراک ایجنسی نے غزہ میں سول آرڈر ختم ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔

ہم بمباری سے نہیں مرے تو سردی اور بھوک سے مر جائیں گے

غزہ کے ایک شہری ابراہیم نے بتایا کہ ’ بنیادی اشیاء غائب ہیں، ہمارے پاس شیر خوار بچے کے لیے دودھ نہیں ہے، ہم اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے چارکول جلاتے ہیں، اس پر کھانا پکاتے ہیں، یہ کھانا بھی بہت محدود ہے، غزہ میں ہمارے قبرستانوں میں ہمیشہ درخت ہوتے ہیں، جب لوگوں نے اسے دیکھا تو ٹھنڈ سے بچنے اور کھانا پکانے کے لیے اس لکڑی کا استعال کرنے لگے‘۔

ابراہیم نے کہا کہ جو کوئی بھی جنگ سے پہلے غزہ کو جانتا تھا وہ اسے نہیں پہچان سکے گا کیونکہ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں ایک بہت بڑا زلزلہ آیا ہو، فلسطین میں اب نقل مکانی، قتل و غارت، بھوک اور محاصرہ ہے، لوگ اپنے بچوں کو ملبے تلے مردہ دبے ہوئے دیکھ رہے ہیں، ہم یہ سب بس برداشت کر رہے ہیں۔

 اگر بروقت امداد نہیں پہنچی تو  غزہ والے کہتے ہیں ہم بمباری سے نہیں مرے تو سردی اور بھوک سے مر جائیں گے، غزہ کے ننھے بہن بھائی دنیا سے اپیل کر رہے ہیں دو دن سے بھوکے ہیں، ہمارے پاس  اشیا خوردونوش کی شدید قلت ہے، یہاں نہ بچوں کیلئے دودھ ہے اور نہ ہی کھانے کیلئے روٹی۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور نے جمعرات کو کہا کہ مصر کی سرحد پر جنوبی غزہ کی پٹی میں واقع رفح پوری فلسطینی پٹی کا واحد علاقہ ہے جسے جنگ بندی کے بعد گزشتہ چار دنوں کے دوران محدود امداد ملی ہے لیکن ابھی تک یہ بھی ناکافی ہے، عالمی اداروں کا یہ بھی کہنا ہے لاکھوں افراد کھانے اور پانی سے محروم ہیں، ہزاروں بے گھر افراد اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے خوراک کی عمارت کے باہر کھڑے کھانے کی تقسیم کا انتظار کر رہے ہیں۔

غزہ کو غذائی ضرورت کا محض 10 فیصد فراہم کیا جا رہا ہے

اقوام متحدہ کے عالمی غذائی پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے جاری کردہ تحریری بیان میں کہا ہے کہ غزہ کو غذائی ضرورت کا محض 10 فیصد فراہم کیا جا رہا ہے، ضروری خوراک کا بہت کم حصہ سرحدوں سے داخل ہو پا رہا ہے، موسم تیزی سے سرد ہو رہا ہے اور غیر محفوظ خیموں اور  پینے کے صاف پانی کی قلت کے باعث شہریوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔

ڈبلیو ایف پی نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ میں ایندھن کی قلت کے باعث علاقے کی 130 بیکریوں میں روٹی کی پیداوار رُکی ہوئی ہے، ایندھن کا مسئلہ خوراک اور امداد کی تقسیم میں بھی رکاوٹ بن رہا ہے، 21 اکتوبر کو رفاح سرحدی چوکی کھُلنے کے بعد سے اب تک غزہ میں 1129 امدادی ٹرالر داخل ہوئے ہیں اور ان میں سے صرف 447 ٹرالر غذائی سامان پر مشتمل تھے، لیکن یہ تعداد ناکافی ہے۔

Comments

- Advertisement -