تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

مجاہدِ اردو اور گنگا جمنی تہذیب کے امین گلزار دہلوی کا تذکرہ

گلزار دہلوی اپنے طرز کے واحد انسان تھے۔ انھیں اردو زبان و تہذیب کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔ گلزار دہلوی 95 سال کی عمر میں آج ہی کے دن 2020ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

وہ جب تک زندہ رہے، ان کی شخصیت دہلوی تہذیب کا نمونہ اور وہ ہر مذہب، مسلک کے ماننے والوں کے لیے فراخ دل ثابت ہوئے اور رواداری کی مثال بنے رہے۔ ہر طبقۂ فکر کو اتحاد و اتفاق، یگانگت کا درس اور ہر سطح پر رواداری کو فروغ دینے والے گلزار دہلوی کا نام بھی ان کے اسی نظریے کا عکاس ہے۔ وہ اپنا پورا نام ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی لکھا کرتے تھے۔ ان کی انہی صفات کی بنیاد پر انھیں مجاہدِ اردو، سراجِ اردو، پرستارِ اردو، شاعرِ قوم، گلزارِ خسرو، بلبلِ دلّی کے خطاب اور القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔

اس ہمہ صفت اور باکمال شاعر نے ہندوستان میں اردو کے سچّے عاشق اور اس زبان کے زبردست حامی کے طور پر مقدمہ لڑتے ہوئے عمر گزار دی۔ انھوں نے بھارت میں اردو کو اس کا جائز حق دلانے کے لیے اخلاص سے کوششیں جاری رکھیں اور اپنی شاعری سے بھی اردو کی شمع روشن کیے رکھی۔ گویا زبان اور تمام مذاہب کا احترام ان کی ادائے خاص رہی۔ برصغیر میں انھیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے منفرد نمائندے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

پنڈت آنند موہن زتشی کا قلمی نام گلزار دہلوی تھا۔ وہ نسلاً کشمیری تھے۔ سات جولائی سنہ 1926ء کو پیدا ہونے والے گلزار دہلوی مجاہدِ آزادی اور ایک اہم انقلابی شاعر تھے۔ انھوں نے غالباً 1942ء سے شعر و سخن کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تا عمر جاری رہا۔ گلزار دہلوی ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں اردو زبان کے عالمی مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ انھیں متعدد تمغہ جات اور ادبی اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں پاکستان کا نشانِ امتیاز، غالب ایوارڈ، اندرا گاندھی میموریل قومی ایوارڈ کے علاوہ مختلف اعزازات شامل ہیں۔

گلزار دہلوی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھاکہ وہ نوعمری ہی میں شعر کہنے لگے تھے اور اپنا کلام اپنے والد حضرت زار دہلوی کو دکھایا کرتے تھے جو دہلی کے ایک کالج میں برس ہا برس تک اردو اور فارسی کے استاد رہے تھے۔

مشہور ہے کہ 1936ء میں جب انجمن ترقیٔ اردو ہند کے لیے کُل ہند کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی تو اس کا افتتاح گلزار دہلوی کی نظم سے ہوا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی گلزار دہلوی کی شاعری کے معترف تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گلزار دہلوی ایک شاعر اور ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود سائنس سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اور یہ امر اکثر قارئین کے لیے تعجب خیز ہو کہ وہ ایک سائنسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ انھیں "کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ سنٹر” کا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اسی ادارے کے تحت گلزار دہلوی نے "سائنس کی دنیا” نامی اردو رسالہ جاری کیا۔ باوصف اس کے وہ "سائنسی شاعر” مشہور تھے۔

اردو کے قادرالکلام شاعر جوش ملیح آبادی نے گلزار دہلوی کے متعلق کہا تھا:
میاں گلزار میرے محترم بزرگ حضرت زار دہلوی کے قابلِ ناز فرزند اور نہایت ہونہار شاعر ہیں۔ ان کی جو روش سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے وہ ان کی اردو سے والہانہ شگفتگی اور مردانہ وار تبلیغ ہے۔ اسی طرح جگر مرادآبادی نے گلزار دہلوی کے بارے میں لکھا تھا: پنڈت آنند موہن زتشی گلزار ایک خاندانی و موروثی شاعر ہیں، اہلِ زبان ہیں، دلّی کی ٹکسالی زبان بولتے ہیں۔ انہیں ہر صنفِ سخن پر قدرت حاصل ہے۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ، نعت و منقبت ہر میدان میں انہوں نے دادِ سخن سمیٹی ہے۔ وہ اردو کے مجاہد ہیں، برصغیر ہند و پاک میں ہر جگہ مقبول ہیں۔ اللہ نے انہیں ایک درد مند اور انصاف پسند دل بھی عطا کیا ہے۔ میں نے انہیں ہر صحبت میں مہذب، نیک انسان، روادار اور عاشقِ رسول پایا ہے۔ اردو پر تو ان کی رباعیاں بے مثال ہیں۔ گلزار صاحب نہ صرف ایک کام یاب اور مقبول غزل گو شاعر ہیں بلکہ اعلیٰ انسانی قدروں اور اردو کی ہچکولے کھاتی نیا کے محافظ بھی ہیں۔

گلزار صاحب کے پاکستان کے دورے کے متعلق اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے کہا تھا: گلزار صاحب کراچی کیا آئے گویا بہار آ گئی کہ دلّی کی اردو سراپا ہو کر ان کی صورت میں کراچی کی ادبی محفلوں میں چھا گئی۔ کراچی والے ان کی زبان دانی اور قدرتِ بیان پر حیران بھی تھے اور داد و تحسین بھی کر رہے تھے۔

گلزار دہلوی کا ایک مشہور قطعہ ہے:
دونوں کی رگ و پے میں خون اپنا ہی جاری ہے
اردو بھی ہماری ہے، ہندی بھی ہماری ہے
اردو سے مگر غفلت کس واسطے ہے ہمدم
تہذیب کی ضامن یہ خسرو کی دلاری ہے

گلزار دہلوی کے پورے وجود سے پرانی دلّی کی تہذیب مترشح ہوتی تھی۔ رہن سہن، وضع قطع اور بولی سب کچھ ’بزبانِ دلّی‘ تھا۔ ان کے آبا و اجداد میں سنسکرت، عربی، فارسی اور انگریزی کے معلّم اور مصنّف بھی گزرے تھے۔ددھیال و ننھیال دونوں طرف شعرا ادبا تھے۔ ماموں پنڈت گردھاری لعل کول صاحب دیوان شاعر تھے۔ والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی المتخلّص بہ زار دہلوی، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ والدہ کو بھی شاعری سے شغف تھا۔ بھائی بھی شاعر تھے۔ گویا اطراف و جوانب میں سخن ور ہی سخن ور تھے۔ گلزار دہلوی نے مختلف رنگ و آہنگ کے شعرا سے اکتسابِ ہنر کر کے اپنے فن کو رنگا رنگ کیا۔ گلستاں، بوستاں، انوار سہیلی، اخلاق محسنی جیسی اہم اساسی کتابیں انھیں والدہ نے پڑھائی تھیں۔ پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی سے زبان و بیان کے رموز و نکات اور انقلابی و قومی نظمیں لکھنا سیکھا۔ نواب سراج الدین احمد خاں سائل سے اسلامی تصوف اور دینیات کی آگہی کے ساتھ ساتھ دلّی کے شعری تہذیب و تمدّن کا انجذاب کیا اور پھر ہر صنف میں‌ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا۔

Comments

- Advertisement -