تازہ ترین

بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی کا تذکرہ

حیدر بخش جتوئی عوام میں ’’بابائے سندھ‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انھیں ہر خاص و عام میں یکساں‌ احترام اور پسندیدگی حاصل تھی۔ لیکن اس ہر دلعزیز اور زندگی میں محنت، لگن اور غریب عوام کے حقوق کی جدوجہد کو وظیفہ بنا لینے والی شخصیت کی خدمات کا اعتراف 30 سال بعد کیا گیا اور ہلالِ امتیاز عطا کیا گیا۔ آج حیدر بخش جتوئی کی برسی ہے۔

حیدر بخش جتوئی سندھ کے مشہور ہاری راہ نما اور شاعر تھے۔ لاڑکانہ ان کا آبائی علاقہ تھا جہاں وہ سنہ 1900 میں پیدا ہوئے۔ بمبئی یونیورسٹی سے گریجویشن اور آنرز کے بعد سرکاری ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا اور ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے۔ پیدائش کے فوراً بعد وہ والدہ سے محروم ہوگئے تھے۔ 11 سال کی عمر میں اسکول میں داخل کروایا گیا، جہاں لاڑکانہ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر آئے تو حیدر بخش جتوئی سے بہت متاثر ہوئے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے حیدر بخش کے والد سے ملاقات کرکے مشورہ دیا کہ ان کا بچّہ غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے، اسے ضرور اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ مدرسۃُ الاسلام کراچی میں داخل ہوئے، جہاں نمایاں کارکردگی اور دسویں جماعت میں سندھ بھر میں پہلی پوزیشن لی۔ بعد میں گریجویشن اور پھر ممبئی یونیورسٹی سے فارسی میں امتیاز حاصل کیا۔ 23 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی تھی۔

حیدر بخش جتوئی نے محکمۂ ریونیو میں ہیڈ منشی کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کیا لیکن پھر وہ عوام کی خاطر اور ہاریوں کے حقوق کے لیے سرکاری ملازمت چھوڑ کر ہاری تحریک میں شامل ہوگئے۔ 1950 میں ہاری کونسل نے ان کا مرتب کردہ آئین منظور کیا جس کے بعد ان کی جدوجہد کے نتیجے میں قانونِ زراعت منظور ہوا۔ وہ ہاریوں‌ کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں جیل بھی گئے۔ عوام اور پسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور جدوجہد کرنے کی وجہ سے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور انھیں اپنا حقیقی مسیحا اور راہ نما مانتے تھے۔

حیدر بخش جتوئی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس، تھیوسوفیکل سوسائٹی اور کمیونسٹ پارٹی، ہندوستان کے ایک رُکن کی حیثیت سے کیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے وفادار رکن تھے، لیکن ہمیشہ روادارانہ، آزاد خیال اور وسیع فہم و فکر کا مظاہرہ سیاسی پالیسیوں اور مذہبی فلسفیانہ سوچ کے تحت کیا۔

ہندوستان میں جدوجہدِ آزادی پر انھوں نے ایک شاہکار نظم بھی تخلیق کی تھی۔ حیدر بخش جتوئی نے اپنی سندھی شاعری کا مجموعہ’’ تحفۂ سندھ‘‘ کے نام سے شائع کروایا تھا۔ 65 صفحات کے اس مجموعے میں نظم’’ دریا شاہ‘‘ اور’’شکوہ‘‘ بھی شامل ہیں، جن کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔ 1946ء میں انھوں نے اپنی شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’آزادیٔ قوم‘‘ شائع کروایا۔ یہ طویل نظم’’مخمّس‘‘ یعنی پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور اس کا موضوع، برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد ہے۔ انھوں نے کئی مشاعروں میں بھی شرکت کی، جن میں پاک و ہند اردو مشاعرہ بھی شامل ہے، جس میں حیدر بخش جتوئی نے سندھی نظم پڑھی۔

کامریڈ حیدر بخش جتوئی ایک زود نویس مصنّف تھے۔ انھوں نے ون یونٹ کے خلاف کئی کتابچے لکھے۔ حیدر بخش جتوئی نے سندھی زبان میں دیگر کتابیں بھی تصنیف کیں۔ 21 مئی 1970 کو حیدر بخش جتوئی انتقال کر گئے تھے۔

Comments

- Advertisement -