تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

جب استادوں کے جھگڑے میں شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھالیں!

اردو ادب میں استادی شاگردی کی روایت بہت پرانی ہے۔

پرانے زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ جس طرح کوئی شخص استاد کی جوتیاں سیدھی کیے بغیر بڑھئی یا لوہار نہیں بن سکتا، اسی طرح شاعر بننے کے لیے بھی کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہ کرنا ضروری ہے۔ گویا قلم گھسنا بھی رندہ پھیرنے اور ہتھوڑا چلانے جیسا کام تھا۔

دلّی اور لکھنؤ میں ایک ایک استاد کے سیکڑوں شاگرد تھے، اور پھر فارغ الاصلاح شاگردوں کے بھی شاگرد ہوتے تھے جو اپنے استاد کے استاد کو دادا استاد کہتے تھے۔ اس طرح ہر شاعر کے دو شجرہ ہائے نسب ہوتے تھے جن میں سے ایک کا باپ سے اور دوسرے کا استاد سے تعلق ہوتا تھا۔ باپ والے شجرے کو کوئی نہیں پوچھتا تھا مگر استاد والے شجرۂ نسب کے بغیر مشاعرے میں شرکت کی اجازت نہیں ملتی تھی۔

پرانے استادوں میں مصحفی استاذُ الااساتذہ تھے۔ ان کے شاگردوں، اور پھر شاگردوں کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جن دنوں وہ لکھنؤ میں مقیم تھے، اس شہر کے آدھے سے زیادہ شاعر انہی کے سلسلۂ سخن سے تعلق رکھتے تھے۔ شہر کے باقی شعرا انشاءُ اللہ خاں انشا کے شاگرد تھے۔ دونوں استادوں میں جب جھگڑا ہوا تو ان کے شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھال لیں۔ بعض بااثر لوگوں کے دخل دینے سے بات آگے نہ بڑھی ورنہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک باب ”شہیدانِ سخن“ کے عنوان سے کہا جاتا جس میں ان شاعروں کے حالات درج ہوتے جو اس جھگڑے میں کام آتے۔

پرانے زمانے میں بڑے بڑے نوابوں اور امیروں کو بھی شاعری کا شوق تھا کیونکہ اس زمانے میں بٹیر بازی اور مرغ بازی کی طرح شاعری بھی ایک تفریح کا درجہ رکھتی تھی۔ نواب اور امیر عموماً موزوں طبع نہیں ہوتے تھے، اس لیے کسی نامور شاعر کو صیغۂ شاعری میں ملازم رکھ لیتے تھے۔ یہ شاعر استاد کہلاتا تھا جس کا کام اپنے شاگرد یعنی آقائے ولی نعمت کے نام غزلیں لکھنا ہوتا تھا۔ بعض استاد نوکری نہیں کرتے تھے، کھلے بازار میں غزلیں بیچتے تھے۔

مصحفی کے بارے میں مشہور ہے کہ جتنا کلام ان کے نام سے موجود ہے، اس سے کہیں زیادہ انہوں نے فروخت کر دیا تھا۔ اردو کے مشہور شاعر میر سوز نے البتہ دانش مندی سے کام لیا۔ وہ ایک عرصہ تک فرخ آباد میں وہاں کے ایک بڑے عہدے دار مہربان خان رند کے پاس صیغۂ شاعری میں ملازم رہے۔ استاد اور شاگردوں کے انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ دونوں کے دیوانوں میں بہت سی غزلیں مشترک ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ سوز اپنے شاگرد کو جو غزل لکھ کر دیتے، اسے اپنے دیوان میں بھی درج کر لیتے تھے۔

پرانے زمانے میں بڑا شاعر اسے نہیں سمجھا جاتا تھا جس کا کلام سب سے اچھا ہو، بلکہ اسے اچھا شاعر مانا جاتا تھا جس کے شاگردوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو۔ اس سلسلے میں غالب کے شاگرد صفیر بلگرامی کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے پاس ایک رجسٹر تھا جس میں وہ شاگردوں کے نام اور شاگرد ہونے کی تاریخ درج کرتے تھے۔ آخر آخر شاگرد بنانے کا شوق اتنا بڑھا کہ اگر کوئی ملاقات کے لیے آتا تھا تو اس کا نام بھی شاگردوں کے رجسٹر میں لکھ لیتے تھے۔ ان کے بیٹے کی شادی میں جتنے مہمان شریک ہوئے ان کے نام بھی انہوں نے اس رجسٹر میں درج کر لیے۔ اس طرح ایک دن میں سو سے زیادہ لوگوں نے ان کی شاگردی قبول کی۔

(از قلم مشفق خواجہ)

Comments

- Advertisement -