تازہ ترین

جم کاربٹ: ماہرِ شکاریات جو ہندوستانیوں کے لیے "دیوتا” تھا

برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں کئی انگریز افسران نے حکومتی اور انتظامی عہدوں پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں جن میں سے بعض اپنی پیشہ ورانہ قابلیت اور صلاحیتوں کے علاوہ شخصی اوصاف کی وجہ سے بھی یہاں کے لوگوں میں مقبول ہوئے۔ جم کاربٹ انہی میں سے ایک تھا۔ اس زمانے میں ہندوستان کے کئی دیہات میں لوگ اسے اپنا مسیحا کہتے تھے اور اکثر اسے دیوتا بھی مانتے تھے۔

اس دور میں‌ برصغیر میں‌ توہم پرستی عام تھی اور اکثر لوگ اعتقاد کی کم زوری کے سبب ناگہانی آفات، ماورائے عقل یا ایسے واقعات جن کی بظاہر کوئی وجہ سامنے نہ ہو، انھیں جنّات، بھوت پریت یا کسی نادیدہ مخلوق کی کارستانی سمجھ لیتے تھے اور خوف زدہ ہوجاتے تھے۔ یہ باتیں بڑھا چڑھا کر دوسروں کو بتائی جاتیں اور ان کا خوب چرچا ہوتا۔ ہندوستان میں‌ جنگلات کے قریبی دیہاتی جنگلی جانوروں بالخصوص درندوں سے بڑے تنگ تھے جو آبادی پر حملہ کرکے انسانوں کا شکار کر لیتے تھے۔ کبھی وہ اپنے شکار کو دبوچ کر اپنے ساتھ جنگل میں لے جاتے اور کبھی گاؤں والوں کو بھنبھوڑی ہوئی اور مسخ شدہ لاشیں ملتی تھیں۔ جم کاربٹ نے اُن جنگلی درندوں کا مقابلہ کیا اور کئی آدم خور شیر اور تیندوے ہلاک کیے اور لوگوں میں توہم پرستی کو دور کرنے کی کوشش کی۔

جم کاربٹ ایک مشہور شکاری، مہم جُو اور مصنّف تھا۔ وہ ہندوستان میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین برطانوی تھے۔ یہ جوڑا بسلسلۂ ملازمت برطانیہ سے نینی تال آیا تھا اور یہیں 25 جولائی 1875 کو جم کاربٹ نے آنکھ کھولی۔ جم کاربٹ کا بچپن ہمالیہ پہاڑ کی ترائی میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے ”کالا ڈھنگی“ میں بسر ہوا۔ اس نے ہندوستان کے باشندوں کے درمیان دیہی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ شروع ہی سے فطرت کا دلدادہ تھا۔ جنگلی حیات میں دل چسپی کے سبب وہ جنگلات میں فوٹو گرافی کا شوق پورا کرتے ہوئے اپنا وقت گزارتا تھا۔

تقسیمِ ہند کے بعد جم کاربٹ کینیا جا بسا اور وہیں 19 اپریل 1955 میں 79 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائی۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی جم کاربٹ نے اپنی چھٹی کتاب مکمل کی تھی۔

جم کاربٹ کو ماہرِ‌ شکاریات بھی کہا جاتا ہے جس نے کئی ایسے درندوں کو ہلاک کیا تھا جنھیں دوسرے شکاری نہیں‌ مار سکے تھے۔ 1907 سے 1938 کے دوران جم کاربیٹ نے مشہور ہندوستانی علاقے چمپاوت میں ایک آدم خور شیرنی، ردر پریاگ کا تیندوا، چوگڑھ کی آدم خور شیرنیوں اور پانار میں بھی اس تیندوے کو شکار کیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کئی انسانوں کو ہڑپ کرچکا ہے۔ اس وقت کے ریکارڈ کے مطابق یہ وہ درندے تھے جن کے حملوں میں مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ جم کاربٹ کو کماؤں کے علاقے میں خاص طور پر لوگوں سے بہت عزّت اور پیار ملا۔ وہاں کے لوگ اسے سادھو مانتے تھے۔ اس کی وجہ جم کاربٹ کا مقامی لوگوں سے اچھا برتاؤ اور ان کے لیے ہم دردی، خلوص اور نیک نیتی بھی تھی۔

دو دہائی تک محکمۂ ریلوے سے وابستہ رہنے والا جم کاربٹ پہلی جنگِ عظیم کے دوران فرانس میں فوجی عہدے دار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکا تھا۔ وہ ایک سخت کوش انسان تھا اور خطرے کا سامنا کرنا گویا اس کا مشغلہ۔ جم کاربٹ نے اپنی جوانی میں کئی شکار کیے اور وہ بے خطر جنگلات میں داخل ہوجاتا تھا لیکن بڑی عمر میں‌ بھی وہ اسی طرح بھرپور توانائی اور جوش و جذبے سے ان درندوں کو ٹھکانے لگاتا رہا جن کی وجہ سے مقامی لوگ خوف زدہ رہتے تھے۔ 51 برس کی عمر میں جم کاربٹ نے ”روپریاگ “ میں ایک آدم خور کو ہلاک کیا اور جس وقت اس نے ”ٹھاک“ کے ایک درندے کو ٹھکانے لگایا تو وہ 63 برس کا تھا۔

جم کاربٹ ایک مصنّف بھی تھا۔ اس نے ہندوستان کے باشندوں، درندوں کے حملے اور آدم خوری کے واقعات کے ساتھ اپنی مہم جوئی اور شکار کی تفصیلات بھی رقم کی اور اس کی کتابوں کا بشمول اردو دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ جم کاربٹ کے شکار کی یہ داستانیں بہت مقبول ہوئیں اور آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

اس کا پورا نام ایڈورڈ جیمز کاربٹ تھا جس کی تحریروں میں اکثر مقامات پر ایک ”میگی“ نامی خاتون کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ اس کی ازحد مخلص اور جاں نثار بہن تھیں۔ میگی بھی تقسیمِ ہند کے بعد اپنے بھائی کے ساتھ ہی کینیا چلی گئی تھیں۔ جم کاربٹ نے شادی نہیں کی تھی۔ اس نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل کینیا میں نیئیری کے مقام پر ایک بڑے اور بلند و بالا درخت پر نہایت خوبصورت، محفوظ اور آرام دہ کاٹیج تعمیر کروایا تھا اور ان کی جانب سے ملکہ الزبتھ اور پرنس فلپس کو اس کاٹیج میں ایک رات قیام کرنے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔

جم کاربٹ نے ایک سوانح عمری بھی لکھی تھی جس کے مختلف زبانوں میں‌ تراجم ہوئے اور اردو میں بھی یہ سوانح عمری بہت شوق سے پڑھی گئی۔ مغربی مصنفین نے بھی جم کاربٹ پر بہت کچھ لکھا ہے جس میں مارٹن بوتھ کی کتاب بھی شامل ہے۔ وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں، ’’جم ایک ماہر شکاری ہی نہیں، بہترین فوٹوگرافر بھی تھا۔ وہ جس قدر اپنی بندوق پر فخر کرتا تھا اسی قدر اپنے کیمروں پر بھی فخر کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کیمرہ رکھتا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ وہ کیمرے کے بغیر گھر سے نکلا ہو۔ اس نے نہ صرف جنگلی حیات کی تصویر کشی کی بلکہ دریاؤں، دیہات، قدرتی خوبصورت مناظر، آسیب زدہ گھاٹیوں اور جنگل میں لگی آگ کی بھی تصویر کشی کی۔ اس نے شیروں کی جو تصویریں لیں ان کا شمار بہترین تصویروں میں ہوتا ہے۔ آرام کی غرض سے لیٹے شیر، وحشت ناک غراتے شیر، اپنے شکار کو گرفت میں لیے شیر۔ ایسی تصویریں پہلے کبھی نہیں لی گئی تھیں۔‘‘ مارٹن کہتے ہیں ’’جم کو جنگلات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ فوٹو گرافی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو جنگل کی افادیت اور اس کے حسن سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

Comments

- Advertisement -