تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھی تاریخ بار بار کہہ رہی ہے کہ ماضی سے سیکھو۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے اسلام آباد میں آئین پاکستان قومی وحدت کی علامت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئین کی 50 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ آئین پاکستان کے لوگوں کے لیے ہے اس میں لوگوں کے حقوق ہیں۔ آئین سے بار بار کھلواڑ کیا گیا۔ 1962 کے آئین میں جمہوریت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ 1971 مشکل وقت تھا جب پاکستان ٹوٹا تو فیڈرل کورٹ میں جسٹس منیر نے اس کا زہریلا بیج بویا۔ جو بیج بویا گیا وہ پروان چڑھا اور ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 4 جولائی 1977 کو ایک شخص آکر پوری قوم پرمسلط ہوگیا جس نے 11 سال ملک پر حکومت کی۔ اس سے قبل عدالتوں میں کیسز آئے چیلنج ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ انہوں نے 58 ٹو بی کی شق بڑھائی اور اس کے ذریعے جونیجو حکومت کا خاتمہ کیا۔ 88 کے بعد سے 99 تک جمہوری دور رہا لیکن اس میں بھی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں پھر 99 میں ایک بھار پھر ایک سرکاری ملازم نے حکومت کو ٹیک اوور کیا۔ اس نے تین نومبر 2007 کو بھی آئین پر وار کیا۔

سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ اگر تاریخ سے نہیں سیکھیں گے تو تاریخ دہرائے گی۔ پاکستان میں ایک بار نہیں کئی بار تاریخ کو دہرایا گیا اور اب بھی دہرایا جا رہا ہے۔ تاریخ بار بار کہہ رہی ہے ماضی سے سیکھو۔ وہ کتنی بار ہمیں سکھائے گی سات بار تو سبق دے چکی ہے۔ جو چیز آئین میں نہیں اسے آمرانہ ہی تصور کیا جائے گا۔ جو چیزیں کہیں اور سے آئیں پھر انہیں آئینی تحفظ ملا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ میری رائے ہے آرٹیکل 184 تھری کے تحت سوموٹو سپریم کورٹ کا اختیار ہے۔ یہ شق مظلوموں کے لیے رکھی گئی تھی۔ اس میں کہیں نہیں لکھا کہ سینئرجج ہو، میری رائے میں سپریم کورٹ کا جج ہو۔ آرٹیکل 184 تھری کے تحت میں ٹرائل کورٹ بن گیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرا فیصلہ درست ہے یا غلط یہ آپ یا تاریخ بتائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ کبھی نہیں ملے گا۔ اس پر بہت وار کیے گئے لیکن آئین کا بہت حوصلہ ہے اور پچاس سال بعد بھی کھڑا ہے۔ 2010 میں جب 18 ویں ترمیم آئی تھی تو آئین کی شکل صورت بگاڑ دی گئی تھی۔ جب تک سب کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو شک وشبہات جنم لیتے ہیں۔ جس پروسس کےتحت 18 ویں ترمیم بنائی گئی اس میں رائے نہیں لی گئی۔

سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ ہم وفاق کو بھول چکے ہیں، اسے قائم رکھنا چاہیے۔ سب کو 18 ویں ترمیم پڑھنی چاہیے اس نے وفاق کو مضبوط کیا۔ آئین میں 18 ویں ترمیم میں بہت اہم باتیں ہوئیں۔ اس ترمیم کے تحت قومی اسمبلی نے اپنے اختیارات صوبائی اسمبلی کو دیے۔ اس ترمیم نے لوکل گورنمنٹ کا درجہ بڑا کر دیا۔

اس موقع پر ان سے سوال کیا گیا کہ ججز میں اختلافات ہیں لوگ کہتے ہیں گھر کی بات گھر میں رہنی چاہیے تو کیا بہتر نہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز کی بات چوراہوں پر زیر بحث نہ آئے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ میرا گھر پاکستان اور آئین پاکستان ہے اور یہ بات گھر ہی میں ہے۔

Comments

- Advertisement -