اشتہار

میلکم ایکس: اسلام قبول کرنے والے سیاہ فام راہ نما کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

1965ء میں‌ میلکم ایکس کو آج ہی کے دن گولیاں مار دی گئی تھیں‌۔ اس روز وہ امریکہ کے شہر نیویارک کے ایک ہال میں اپنے پیروکاروں سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تھے۔

میلکم ایکس کو تقریر کرنے کے لیے دعوت دی گئی اور جیسے ہی انھوں نے اپنی نشست چھوڑی، کئی گولیاں ان کے جسم میں‌ اتر گئیں۔ 39 سالہ میلکم ایکس کو اسپتال پہنچایا گیا، لیکن وہ جاں بَر نہ ہوسکے۔

میلکم ایکس کو امریکہ کی تاریخ میں‌ ان کے ایک نعرے کی وجہ سے متنازع اور وہاں سیاہ فام امریکیوں کی تنظیم کے ایک تشدد پسند لیڈر کے طور پر شہرت ملی تھی۔

- Advertisement -

قبولِ اسلام اور حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے اسلامی ممالک کا دورہ کرنے اور اہم لیڈروں سے ملاقات کرنے والے میلکم ایکس امریکی سیاہ فاموں کے مشہور لیڈر تھے۔ اپنی شہادت سے ایک سال قبل 1964ء میں انھوں نے حج کی عظیم سعادت بھی حاصل کی تھی۔ اسی حج کے بعد ان کا سخت گیر رویہ اور سفید فام امریکیوں سے متعلق ان کا نظریہ تبدیل ہوا اور وہ ایک بالکل مختلف لیڈر بن کر امریکہ لوٹے۔ انھیں اسلامی دنیا میں ملک الشبہاز کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے لیکن وہ اپنے خاندان کے دیے ہوئے نام ہی سے مشہور رہے۔

میلکم ایکس کی زندگی میں اتار چڑھاؤ اور ایسے واقعات پیش آئے جن سے وہ گوری چمڑی والے امریکیوں سے نفرت پر آمادہ ہوتے چلے گئے۔ ان کا اصل نام میلکم لٹل تھا۔ 19 مئی 1925ء کو انھوں نے ریاست نبراسکا کے شہر اوماہا میں آنکھ کھولی۔ والد، ارل لٹل سیاہ فاموں کے حقوق کی تنظیم، یونیورسل نیگرو امپرومنٹ ایسوسی ایشن کے مقامی عہدے دار تھے۔ وہ مقامی چرچ میں مذہبی درس بھی دیتے تھے اور ان کا شمار امریکہ کی سول رائٹس موومنٹ کے بانیوں میں ہوتا تھا۔ اوماہا میں سیاہ فام کثیر تعداد میں آباد تھے جن کو کارخانوں میں معمولی ملازمتوں کے بعد گزر بسر کے لیے معقول معاوضہ ملتا تھا اور نہ ہی کوئی سہولیات حاصل تھیں۔ سفید فام ان سے نفرت کرتے تھے اور سماجی اعتبار سے یہ لوگ ہر طرح دھتکارے جاتے تھے۔ سفید فاموں کے ہاتھوں مار پیٹ اور قتل کے واقعات بھی معمول تھا۔ ہر طرح سے سیاہ فام امریکیوں کو تکلیف پہنچانے اور ہر شعبہ میں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ایسے میں ارل لٹل سفید فاموں سے اپنے حقوق مانگنے اور امریکی سیاہ فاموں کے لیے آواز اٹھاتے تو یہ سب سفید فاموں کو ناگوار گزرتا اور ایک تنظیم کے اراکین اس کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ اس طرف سے خبردار ہونے پر ارل لٹل 1926ء میں بیوی بچوں کو لے کر شہروں میں‌ ہجرت کرتے رہے مگر ہر جگہ نسل پرستی عروج پر تھی۔ متعصب سفید فاموں نے سیاہ فاموں کو بدستور اپنا غلام بنائے رکھنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنا رکھی تھیں۔ ’’بلیک لیجن‘‘ تنظیم ان میں سب سے طاقت ور اور بااثر تھی۔ 1929ء میں اسی تنظیم کے دہشت گردوں نے ارل لٹل کا گھر جلا دیا تھا لیکن وہ اور اہلِ خانہ محفوظ رہے تھے۔ سفید فام دہشت گرد تنظیمیں جب حقوق کے لیے اس آواز کو دبانے میں ناکام رہیں تو 1931ء میں بلیک لیجن نے ارل لٹل کو مار ڈالا۔

شوہر کی ہلاکت کے بعد میلکم ایکس کی ماں مخبوط الحواس ہو گئی کیوں کہ جمع پونجی ختم ہوجانے کے بعد بچّوں کے اخراجات، بیروزگاری اور غربت کا خوف اس کے ذہن پر سوار ہوگیا تھا۔ اسے پاگل خانے میں داخل کرانا پڑا۔ اس سیاہ فام کنبے کے حالات سے ظاہر ہے کہ میلکم ایکس کا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں گزرا ہو گا۔ انھوں نے ذرا ہوش سنبھالا تو تشدد، قتل و غارت، ظلم و ستم اور غربت دیکھی۔ وہ ماں باپ کی شفقت و محبت بھی طویل عرصے نہ پا سکے اور والد کے بعد والدہ پاگل خانے چلی گئیں تو بہن بھائیوں کے ساتھ الگ سیاہ فام گھرانوں میں پرورش پائی۔ میلکم ایکس کو نئے گھر میں‌ بھی غربت ملی اور وہ اکثر ہوٹلوں اور دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں چوری کرکے پیٹ کی آگ بجھاتے۔ ایک دن پولیس نے ایسی حرکت پر پکڑ اور وہ بچہ جیل بھیجے گئے۔

خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کے دوران ان کی تعلیم کا سلسلہ کسی طورجاری رہا۔ حیران کن طور پر وہ تعلیمی میدان میں کارکردگی کے لحاظ سے عمدہ تھے۔ تاہم بعد میں امریکی سفید فام معاشرے میں اپنے ساتھ تعصب اور ظلم دیکھ کر ان کا تعلیم سے جی اچاٹ ہو گیا اور انھیں تجربہ ہوا کہ بظاہر شریف اور پڑھے لکھے نظر آنے والے سفید فام بھی نسل پرست ا ور متعصب ہیں۔ میلکم ان سب باتوں کی وجہ سے جارحیت پسند اور معاشرے کے باغی بن گئے۔ ایک وقت آیا جب وہ جرائم کی دنیا سے وابستہ ہوئے اور منشیات فروشی کے علاوہ جوئے بازی، چوری چکاری اور اسی طرح کے جرائم سے جڑے رہے اور پھر بوسٹن میں پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا۔ مقدمہ چلا اور ان کو دس برس قید سخت کی سزا ہو گئی۔ یہاں ان کی خوش قسمتی کہ انہیں اپنے بھائی ریجلنڈ لٹل کی صورت ایک مدد گار مل گیا۔ وہ اکثر بڑے بھائی سے ملنے آتا تھا۔ گو کہ عموماً قلاش رہتا لیکن ایمان دار اور با کردار تھا۔ ایک روز اس نے میلکم کو بتایا کہ وہ ایک تنظیم‘ نیشن آف اسلام کا رکن بن گیا ہے۔ اس نے میلکم پر زور دیا کہ وہ بھی تنظیم کا رکن بن جائے۔ اس کے بانی کے نظریات کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکا میں آباد تمام سیاہ فام مسلمانوں کی اولاد ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنا حقیقی مذہب، اسلام اختیار کر لینا چاہیے۔ اس حقیقی بانی کی پراسرار گم شدگی کے بعد 1934ء میں اس کے نائب، عالی جاہ محمد نے تنظیم کی سربراہی سنبھال لی تھی اور اسے ایک نسل پرست تنظیم بنا ڈالا۔ عام مسلمانوں کے نزدیک نیشن آف اسلام ایک گمراہ کُن تنظیم بن گئی اور میلکم جو دہریے بن گئے تھے اور مذہب کو بیکار شے سمجھتے تھے، اپنے بھائی ریجلنڈ لٹل کی وجہ خاصے بدل گئے۔

میلکم ایکس اگست 1952ء میں جیل سے رہا ہوئے اور اس کے بعد امریکا بھر میں نیشن آف اسلام کے نظریات کی ترویج کو مقصدِ‌ حیات بنا لیا۔ وہ امریکی سیاہ فاموں کو حقوق و فرائض کا شعور دے کر باعزت شہری بنانا چاہتے تھے۔ میلکم ایکس پُرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ہمیشہ صاف ستھرا لباس پہنتے اور مقصد سے لگن نے ایک پُرجوش مقرر بھی بنا دیا تھا۔ وہ وقت بھی آیا کہ میلکم عام سیاہ فاموں میں مقبول راہ نما بن گئے اور نوجوان ان کی کرشماتی شخصیت کے زیر اثر بڑی تعداد میں نیشن آف اسلام میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔ اسلامی تعلیمات میں دل چسپی کے ساتھ میلکم اس مذہب کے آزادی اور عزّت و وقار سے جینے اور اپنے حق کی خاطر ڈٹ جانے کے فلسفے سے بہت متاثر تھے اور ان کی وجہ سے کئی اہم اور مشہور سیاہ فام شخصیات بھی نیشن آف اسلام کے رکن بنے۔ لیکن میلکم ایکس رفتہ رفتہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سفید فام سیاہ فاموں کو حقوق نہیں دیتے، تو ان کو بندوق اٹھالینی چاہیے۔ ان کی مقبولیت اور جدوجہد کو دیکھ کر امریکی پرنٹ میڈیا میں میلکم کے انٹرویوز شایع ہونے لگے اور یوں وہ امریکا میں جانے پہچانے سیاہ فام لیڈر بن گئے۔ لیکن دوسری طرف حکومتِ وقت کی نظروں میں وہ ایسے خطرناک سیاہ فام لیڈر تھے جو ضرورت پڑنے پر ریاست کے خلاف ہتھیار بھی اٹھا سکتا تھا اور معاشرے کو تشدد کی راہ پر ڈال سکتا تھا۔ اسی لیے امریکی خفیہ ایجنسی اس سیاہ فام لیڈر کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے لگی۔

ابھی یہ جدوجہد جاری تھی کہ ان کا نیشن آف اسلام کے سربراہ، عالیجاہ محمد سے ٹکراؤ ہو گیا۔ دراصل 1962ء تک میلکم ایکس اس تنظیم کے مقبول ترین راہ نما بن چکے تھے جس کی وجہ سے عالیجاہ محمد اپنے اس نوجوان ساتھی سے حسد کرنے لگا۔ اسی دوران میلکم پر یہ راز افشا ہوا کہ عالیجاہ ایک عیاش اور بدکار آدمی ہے جس پر انھوں نے 1964ء کو نیشن آف اسلام سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔

وہ اسلام کے تصورِ حیات اور بالخصوص انسان کی برابری، مساوات اور اتحاد و یگانگت کے فلسفے سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور یہ وہ چیز تھی جو امریکہ کے لوگوں میں نسل پرستی اور ظاہری و طبقاتی فرق کی وجہ سے نفرت اور دوری اختیار کرنے کی روش کا الٹ تھی، اس کا عظیم مشاہدہ اور تجربہ انھیں‌ احرام باندھ کر ہوا جس نے اس امریکی سیاہ فام لیڈر کی ذہنیت ہی بدل ڈالی۔ حجاز میں انھیں حقیقی اسلامی تعلیمات کی عملی شکل دیکھنے کو ملی اور وہ انتہا پسند انسان کے بجائے متعدل مزاج بن کر امریکہ لوٹے۔

اب میلکم سول رائٹس موومنٹ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے۔ انھوں نے مارٹن لوتھر کنگ اور دیگر سیاہ فام لیڈروں پر تنقید کرنا بند کر دی۔ باشعور سفید فاموں کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا تاکہ وہ امریکی معاشرے سے نسلی تعصب اور نفرتوں کا خاتمہ کرسکیں۔ اب صرف انتہا پسند سفید فاموں کا طبقہ ان کی تنقید کا نشانہ تھا۔ لیکن اس باطنی اور ذہنی تبدیلی کے ساتھ اب ان کی زندگی بہت کم تھی۔ آخر کار وہ اپنے بدخواہوں اور ناراض سیاہ فاموں کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔

امریکہ میں ’صرف سیاہ فام‘ کا نعرہ لگانے والے اور اس کی بنیاد پر متنازع سیاہ فام راہ نما کہلانے والے میلکم ایکس کو جن دو افراد نے گولیاں ماری تھیں، ان کو بعد میں آڈیٹوریم کے باہر ہجوم نے پکڑ کر بری طرح مارا پیٹا۔ لیکن پولیس انھیں‌ چھڑانے میں کام یاب ہوگئی تھی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں