تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

یہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی سے اردو زبان کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں جو نام مقبول ہوئے، مشتاق احمد یوسفی ان میں سے ایک تھے۔ انھیں اردو زبان کا سب سے بڑا اور نہایت مقبول ادیب کہا گیا اور عہد ساز مزاح نگار تسلیم کیا گیا۔ آج مشتاق احمد یوسفی کی برسی منائی جا رہی ہے۔

مشتاق یوسفی کے دستاویزات کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش چار اگست سنہ 1923 ہے۔ وہ انڈیا کی ریاست راجھستان کے شہر ٹونک میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ آگرہ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کرنے والے یوسفی صاحب نے ملازمت کے لیے شعبۂ مالیات کا انتخاب کیا اور بینکار کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے ریٹائر ہوئے۔

مشتاق احمد یوسفی کئی کتابوں کے مصنّف ہیں جن میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آبِ گم بہت مقبول ہیں جب کہ وفات سے قبل ان کی آخری کتاب شام شعرِ یاراں کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ ان کی کوئی تصنیف ربع صدی بعد سامنے آئی تھی اور یوسفی صاحب کے مداحوں کا یہ طویل انتظار مایوسی پر تمام ہوا۔ اس عرصہ میں اگرچہ یوسفی صاحب کو جو پذیرائی اور قارئین میں مقبولیت نصیب ہوئی وہ بہت کم لوگوں کے حصّے میں آتی ہے اور اسی کے زیرِ‌اثر ان سے توقعات بہت تھیں۔ مداحوں کو یوسفی صاحب کے طنز و مزاح، ان کی زبان اور تحریر کا چکسا لگ چکا تھا چنانچہ وہ نئی تصنیف کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ سب ان کی پچھلی کتابوں‌ کے گدگداتے جملے اور منفرد لب و لہجہ میں‌ طنز و مزاح کی وجہ سے تھا، مگر نئی کتاب محض تقریروں کا مجموعہ تھی جس میں انہی کے مضامین کے ڈھیروں اقتباس موجود تھے۔ لیکن وہ ایک عظیم مزاح نگار تھے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مزاح کا عہدِ یوسفی ہے۔

مشتاق احمد یوسفی پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے 1950ء تک ہندوستان میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہے تھے۔ لیکن پھر ان کا خاندان پاکستان ہجرت کر گیا اور یہاں یوسفی صاحب نے بینک کی ملازمت کو ذریعۂ معاش بنایا۔

مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر 1955 میں اس وقت شروع ہوا جب ان کی ایک تحریر صنفِ لاغر” کے نام سے لاہور سے شایع ہونے والے رسالے’’سویرا‘‘ کی زینت بنی۔ بعد میں مختلف رسائل میں ان کے مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1961 میں مختلف انشائیوں اور مضامین کو بہم کر کے ان کا پہلا مجموعہ ’’چراغ تلے‘‘ کے نام سے قارئین تک پہنچا۔ ان کے کل پانچ مجموعہ ہائے مضامین شائع ہوئے جن میں ’’چراغ تلے‘‘ کے بعد ’’خاکم بدہن‘‘ 1970 میں، ’’زرگزشت‘‘اگلے سال، ’’آبِ گُم‘‘1989 اور آخری کتاب ’’شامِ شعرِ یاراں‘‘شامل ہے۔

مشتاق احمد یوسفی نے انشائیے، خاکے، آپ بیتی اور پیروڈیاں لکھی ہیں‌ جن میں زبان کی چاشنی کے ساتھ وہ پُرلطف طنز و مزاح پڑھنے کو ملتا ہے کہ ادب کا ہر قاری مشتاق احمد یوسفی کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کی تخلیقات میں ان کی زندگی کے مختلف ادوار کا دل چسپ بیان اور شخصیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو ان کے قریب رہے۔

اردو کے اس ممتاز مزاح نگار کی تحریروں پر نظر ڈالیں‌ تو ظرافت نگاری کے ساتھ انھوں‌ نے سیاست اور سماج میں پیدا ہونے والی کج روی، کم زوریوں اور عیوب پر چوٹ کی ہے۔ لیکن ان کا انداز ہمدردانہ ہے اور اس سے مقصود اصلاح ہے جب کہ یہ تحریریں ان سچائیوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں‌ جن سے ہمارا معاشرہ براہِ راست متأثر ہورہا ہے۔ یوسفی صاحب نے اپنی تخلیقی صلاحیت سے کام لے کر کئی رنگا رنگ موضوعات کو اپنے دلکش اور شوخ انداز میں اس طرح بیان کیا کہ قارئین آج بھی ان کے طرزِ‌ تحریر کے سحر میں گرفتار ہیں۔

یوسفی صاحب 20 جون 2018ء کو انتقال کرگئے تھے۔

Comments

- Advertisement -