اشتہار

موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

اشتہار

حیرت انگیز

مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو شہنشاہ نیرو بانسری بجا رہا تھا اور یہ بات ہے سنہ 64 عیسوی کی۔ اس حکم راں کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ نیرو اس وقت بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ آگ بھی اس نے خود لگوائی تھی۔

خیر، ہمارا اصل موضوع یہ نہیں‌ ہے۔ بانسری کے بارے میں جان لیں کہ قدیم دور کا انسان بھی اس کے وجود سے پھوٹنے والے سُروں اور سماعتوں میں رَس گھولتی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ بانسری کی تان نے اگر ہوش مندوں کو مدہوش کیا تو اور دیوانوں نے اسے معرفت کے سربستہ رازوں تک پہنچنے کا وسیلہ بتایا ہے۔

بانسری کی مختلف شکلیں ہیں اور اسی لیے یہ بانس یا دھات یا ابونائیٹ کی ہوسکتی ہے۔ اس میں بالعموم چھے سوراخ ہوتے ہیں۔ بانسری بجانے والا اس میں اپنا سانس پھونکتا ہے اور ان سوراخوں پر انگلیاں رکھتے ہوئے مہارت کے ساتھ ہٹاتا ہے اور اس طرح میٹھے سُر بکھیرتے ہیں۔

- Advertisement -

ہوا کے دوش پر سُر بکھیرنے والی بانسری کے ساتھ گائے گئے گیت سماعتوں میں مٹھاس، چاشنی اور نغمگی سمو دیتے ہیں اور برصغیر کی موسیقی اور فلم انڈسٹری میں اس کا سحر آج بھی قائم ہے۔

پاک و ہند میں بننے والی کئی فلموں کے مقبول گیتوں میں بانسری کی تان نمایاں رہی جب کہ شعراء نے اپنے گیتوں میں‌ بھی بانسری کو خوب صورت ناموں سے جگہ دی ہے۔ اسے ونجلی، بنسی، بانسری کہہ کر اشعار میں‌ پرویا گیا ہے۔ یہاں ہم چند پاکستانی گیتوں کا ذکر کررہے ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔

مالا بیگم کی آواز آج اس گیت کی صورت میں‌ بھی زندہ ہے جس کے بول ہیں’’ بنسی بجائے کوئی ندیا کے پار… یہ فلم جاگ اٹھا انسان کا وہ گیت تھا جس کی دُھن لال محمد اقبال نے بنائی تھی اور شاعر دکھی پریم نگری تھے۔ 1966ء کی اس فلم میں شائقینِ سنیما نے اداکارہ ’’زبیا‘‘ کو اس گیت پر رقصاں دیکھا تھا۔

ہدایت کار رزاق کی فلم ’’کٹاری‘‘ 1968ایک خانہ بدوش رقاصہ کی کہانی تھی ۔ یہ کردار معروف فن کارہ زمرد نے ادا کیا تھا۔ یُوں تو کٹاری کے متعدد نغمات مقبول عام ہوئے، لیکن اس کا مقبول ترین گیت جو میڈم نورجہاں نے گایا تھا، اس کے بول تھے ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں 1968ء میں فلم کٹاری کا ایک نغمہ بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے ’’بنسی بجائی تو نے، نندیا اڑائی تو نے، تیری قسم سانورے، میں تو ہو گئی بانوریا…‘‘ فلم کے ہیرو طارق عزیز تھے جنھیں بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کی دھن ایم اشرف نے ترتیب دی تھی۔

1970ء میں ریکارڈ مقبولیت حاصل کرنے والی پنجابی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کا یہ گیت بھی لازوال ثابت ہوا جو نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بول تھے، ’’سن ونجلی دی مٹھری تان وے، میں تاں ہو ہو گئی قربان وے…‘‘

خواجہ خورشید انور کی اثر خیز دھن، میڈم نور جہاں کی دل کش گائیکی، اور استاد سلامت حسین کی بجائی ہوئی لازوال بانسری نے اس گیت کو امر کر دیا۔ 51سال گزر جانے کے باوجود اس گیت کی مٹھاس، دل کشی اور پسندیدگی برقرار ہے۔ اس فلم کا دوسرا ونجلی گیت جو دو گانا تھا۔

ایک فلمی گیت تھا، او ونجلی والڑیا، تینو کر بیٹھی آں پیار … ونجلی والڑیا جس میں میڈم نور جہاں کے ساتھ گلوکار منیر حسین نے آواز ملائی تھی۔ یہ اپنے وقت کا مقبول ترین اور سب سے پسندیدہ فلمی نغمہ تھا۔

گلوکارہ مہناز نے ایک نہایت خوب صورت اور دل میں اتر جانے والے بولوں پر مشتمل گیت گایا تھا جس کے بول تھے’’او میرے سانوریا بانسری بجائے جا، بانسری بجا کے میرے ہوش بھلائے جا۔‘‘ تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت مشہور اداکارہ آسیہ پر پکچرائز ہوا اور ان کے ساتھ اداکار ندیم کو بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا۔ فلم تھی بڑے میاں دیوانے جو 1977 میں ریلیز ہوئی تھی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں