تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے خلاف عالمی دن

آج پاکستان سمیت دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے خلاف دن منایا جارہا ہے۔

29 اگست کو اس دن کے منانے کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کے نتیجے میں نسلِ انسانی اور ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے مختلف سماجی تنظیموں کے زیرِ اہتمام تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور اس میں‌ ماہرین اور دانش ور دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے عالمی اداروں اور تمام ممالک کی توجہ ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی طرف مبذول کرواتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے غیر جوہری بم کے مقابلے میں‌ ایک جوہری بم ناقابلِ یقین اور نہایت خوف ناک تباہی لاسکتا ہے۔ جوہری بم ایک وسیع رقبے پر موجود شہر کو تباہ و برباد کر سکتا ہے اور خوف ناک بات یہ ہے کہ کئی سو سال تک ماحول اور اس میں بسنے والے تمام جاندار اس کے اثرات محسوس کرتے ہیں۔

گو کہ آج دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد 30 سال پہلے کی نسبت کم ہے لیکن یہ اب بھی اتنے ہیں کہ دنیا کو کئی مرتبہ تباہ کرسکتے ہیں جب کہ اس کے خلاف کوششوں کے باوجود اُن اقدامات کا وہ اثر ہوتا نظر نہیں‌ آرہا جس سے مستقبل قریب میں دنیا ان ہتھیاروں سے پاک ہوجائے۔

سائنس کا مضمون اور ایٹم
ہم نے زمانۂ طالبِ علمی میں‌ سائنس کے مضمون میں ایٹم اور آئسو ٹوپ کے بارے میں پڑھا ہے۔ یہی جوہری دھماکہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ جوہری ہتھیار انتہائی طاقتور دھماکہ خیز ہتھیار ہوتے ہیں جسے ہم اکثر ایٹم بم بھی کہتے ہیں۔

سنہ 1945ء میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے تھے جس نے لاکھوں انسانوں کو موت، عمر بھر کی معذوری، بیماریاں دیں اور شہر تباہ ہوگئے۔ یہ دو شہر ہیروشیما اور ناگاساکی تھے۔

دنیا میں تسلیم شدہ جوہری ریاستیں
اس وقت دنیا میں پانچ تسلیم شدہ جوہری ریاستیں امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس اور روس ہیں جب کہ چار دیگر ممالک انڈیا، پاکستان اور شمالی کوریا جوہری تجربات کر چکے ہیں جب کہ اسرائیل کو بھی جوہری طاقت کا حامل سمجھا جاتا ہے مگر سرکاری طور پر اس کی نہ تصدیق یا تردید نہیں‌ کی جاتی۔ سب سے زیادہ جوہری ہتھیار امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔

جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ اس مقصد ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکا جائے اور جوہری اسلحے کی تخفیف ہو۔ یہ ایک عالمی معاہدہ ہے جس میں اقوامِ‌ متحدہ کے رکن ممالک بھارت اور پاکستان شامل نہیں ہوئے۔ 1970 سے لے کر اب تک 191 ممالک جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ‘این پی ٹی’ میں شامل ہوئے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پانچ ممالک کو جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستیں سمجھا جاتا ہے جن میں امریکہ، روس، فرانس اور چین شامل ہیں۔ انھیں یہ ہتھیار رکھنے کی اجازت اس لیے ہے کہ ان کے جوہری ہتھیار اس معاہدے کے نفاذ سے پہلے کے ہیں۔ لیکن اس معاہدے میں شامل ہونے کے بعد وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے پابند ہیں۔

کیا دنیا کبھی جوہری ہتھیاروں سے پاک ہوگی؟ یہ ایک سوال ہے جو دانش ور طبقہ اور عالمی امن پر زور دینے والے ماہرین اقوامِ عالم سے مختلف فورمز پر کرتے ہیں اور شاید دنیا میں‌ بسنے والے ہر انسان کا بھی یہی خواب ہے کہ ہر ملک امن اور سلامتی کو فروغ دینے اور اپنے مالی وسائل کو گلوبل وارمنگ جیسے بڑے خطرے سے نمٹنے کے لیے استعمال کرے نہ کہ تباہی اور بربادی لانے والے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور تجربات پر۔

ایک نادر موقع جسے گنوا دیا گیا!
جولائی 2017 میں 100 سے زائد ممالک نے اقوامِ متحدہ کے اُس معاہدے کی توثیق کی جس میں جوہری ہتھیاروں‌ پر مکمل پابندی لگانے کی بات کی گئی۔ یہ وہ موقع تھا جب خیال کیا جارہا تھا کہ دنیا جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونے کے قریب آ گئی ہے، مگر جوہری طاقت یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس نے اس معاہدہ کا بائیکاٹ کیا۔

جوہری ہتھیاروں کے اثرات
جوہری ہتھیاروں سے بڑی تعداد میں تابکاری خارج ہوتی ہے۔ اس کے دھماکے کے بعد بھی اس کے اثرات طویل عرصے تک رہتے ہیں جس سے لوگ متلی، الٹیاں، اسہال، سَر درد اور بخار محسوس کرتے ہیں۔

شاید جوہری تجربات کے اثرات اور ان کے نشانات سے دنیا لاکھوں برس تک نجات نہیں پاسکتی۔ ایک عالمی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماضی میں امریکہ، سابق سوویت یونین اور برطانیہ کرّۂ ہوائی اور سمندر میں، پیسیفک جزائر کے قریب، آسٹریلوی صحرا میں، امریکی سرزمین پر یا سوویت یونین کے دور افتادہ مقامات پر جوہری تجربات کر چکے ہیں جن کی وجہ سے قدرتی ماحول پر گہرے منفی اثرات پڑے اور تابکار بادل پیدا ہوئے جو فضا اور جانداروں کے لیے خطرناک ہیں۔

سنہ 2015 میں عسکری کارروائیوں کے ماحول پر اثرات سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا گیا تھا، جس کے مطابق جوہری دھماکوں سے حیاتیاتی تنوع کو شدید نوعیت کے نقصانات پہنچتے ہیں۔ جوہری دھماکے کی وجہ سے روشنی اور حدت کی صورت میں نکلنے والی حرارتی توانائی اس دھماکے کے مقام سے آس پاس ہر طرح کی زندگی کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ بعض صورتوں میں کئی کلومیٹر کے علاقے تک حرارتی توانائی ہر طرح کی زندگی ختم کر دیتی ہے اور فقط راکھ باقی بچتی ہے۔

جانوروں پر تھرمل شاک یا حرارتی صدمے کے اثرات پر تحقیق زیادہ نہیں ہے، تاہم انسان کئی کلومیٹر کے فاصلے تک جان لیوا حد تک جھلس سکتے ہیں۔ ایسے ہی اثرات دیگر ممالیہ جانوروں پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اس دھماکے کے دباؤ کی وجہ سے پھیپھڑوں اور دیگر اعضاء کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

درختوں، پرندوں اور سمندری حیات پر اثرات
ماہرین کے مطابق جوہری دھماکے سے پودے بھی محفوظ نہیں رہتے۔ جوہری دھماکے کی قوت کی وجہ سے درخت جڑ سے اکھڑ جاتے ہیں جب کہ ان کی شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ مچھلیوں پر یہ اثرات اور بھی زیادہ بڑی سطح پر دیکھے جاتے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں امریکی اور فرانسیسی تجربات کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں مچھلیاں مر گئی تھیں۔

عالمی خبر رساں‌ ادارے کی ایک رپورٹ میں‌ بتایا گیا تھا کہ سمندری ممالیہ اور سمندر میں غوطہ لگانے والے پرندوں پر بھی اسی طرز کے اثرات دیکھے گئے۔ تاہم غیر فقاریہ جانوروں میں جوہری دھماکے سے پیدا ہونے والے دباؤ کے خلاف بہتر مزاحمت دیکھی گئی۔

طویل مدتی ماحولیاتی اثرات
سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے کئی جوہری تجربات کیے تھے اور ان میں سے بعض کھلی فضا میں بھی تھے۔ جرمنی کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین بتاتے ہیں‌ کہ اس کے نتیجے میں پیسیفک خطّے کے کئی جزائر مکمل طور پر خاکستر ہو گئے، جن میں سے بعض پر اب بھی زندگی ممکن نہیں۔ سنہ 2019 کی ایک تحقیق کے مطابق متاثرہ علاقوں میں تابکاری کی سطح اب بھی چرنوبل اور فوکوشیما جوہری حادثات کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زائد ہے۔

عالمی معاہدوں سے کیا فرق پڑا؟
عالمی معاہدوں کے بعد 1963ء سے یہ تجربات زیرِ زمین کیے جانے لگے، جو ماحول کے تناظر میں کسی حد تک بہتر پیش رفت تھی۔ بیسویں صدی کے آخر میں بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے۔ لیکن اکیسویں صدی میں فقط شمالی کوریا نے ایسے تجربات کیے ہیں۔

Comments

- Advertisement -