تازہ ترین

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

معراج محمد خان کا تذکرہ جن کے لہجے کی سچائی عوام کے دلوں میں آباد تھی

معراج محمد خان کو اپنے مقصد سے عشق تھا اور اس راستے میں‌ جتنے بھی سخت مقام آئے، وہ ان سے گزر گئے۔ ملک کے مظلوم طبقات، مختلف گروہوں کے حقوق اور جمہوریت کے لیے لڑنے والے معراج محمد خان 22 جولائی 2016ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

معراج محمد خان پاکستان میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں کے پیر و مرشد رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی سفر میں اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور جمہوریت کو پامال کر کے اپنی حاکمیت کا اعلان کرنے والے ہر آمر کو للکارا۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، سڑکوں پر احتجاج کیا اور پولیس کا لاٹھی چارج سہا۔ مگر عوامی حکومت کے لیے اُن کی جدوجہد اور طبقاتی نظام کے خلاف اُن کی آواز کبھی مدھّم نہیں‌ پڑی۔ جاہ و منصب، مال و زر اور مراعات کی پیشکش معراج محمد خان کو اُن کے اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹا سکے۔

اُن کے نظریات اور سیاسی جدوجہد کی داستان طویل ہے جسے کئی صفحات پر پھیلایا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں‌ کے لیے ”معراج بھائی“ تھے، اور اُن کے یہ متوالے اُن کی قیادت میں ظلم اور جبر کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔

معراج محمد خان نے ساری زندگی اپنے نظریات پر کاربند رہتے ہوئے سنجیدہ سیاست کی۔ ایک طرف تو لاٹھی چارج، جیل اور مقدمات انھیں اُن کے نظریات سے دستبردار نہیں کروا سکے اور دوسری طرف وزارت اور مراعات کی پیشکش بھی معراج محمد خان کو اُن کے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹا سکی۔

معراج محمد خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز طلبہ سیاست سے کیا اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) سے منسلک رہے۔ معراج محمد خان لگ بھگ 10 سال تک این ایس ایف کی قیادت میں شامل رہے اور اپنے زمانۂ طالبِ علمی سے سیاست تک لگ بھگ 13 سال جیلوں سے واسطہ پڑا۔

مئی 1974 میں معراج محمد خان نے کراچی میں مزارِ قائد کے باہر خواتین اساتذہ کی جانب سے کیے جانے والے مظاہرے میں شرکت کی تھی اور اس مظاہرے میں وہ زخمی ہوئے تھے۔ سنہ 1983 میں معراج محمد خان کو پولیس نے ایم آر ڈی کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے گھیر لیا تھا اور ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ کراچی اور ملک کے دیگر شہروں‌ میں‌ کئی سیاسی جلسوں میں معراج محمد خان کی گرجدار آواز میں تقریر اور ان کا پُرجوش انداز آمروں اور ان کا ساتھ دینے والے سیاست دانوں پر لرزہ طاری کرتا رہا۔ ایوب خان کی فوجی آمریت نے سر اٹھایا تو ہر طرف سکتہ طاری تھا۔ یہ معراج اور ان کے ساتھی ہی تھے جنھوں نے ماشل لاء ضوابط کو ٹھکراتے ہوئے سب سے پہلے اس آمریت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ جب فوجی آمر ضیاءُ الحق نے بھٹو صاحب کے خلاف گھیرا تنگ کیا، اور بعد میں اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو پر عقوبتوں کے دروازے کھولے، تو معراج محمد خان اور ان کے صداقت شعار ساتھیوں نے اس کے خلاف شد و مد سے آواز بلند کی۔ معراج صاحب کے ولولہ انگیز خطبات آج بھی اس نظامِ کہنہ اور ہر آمر و جفا پیشہ کے لیے گویا تازیانہ ہیں۔

وہ پیپلز پارٹی کے بانی قائدین اور ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں سے ایک تھے اور بعد میں وہ بے نظیر بھٹو کے قریب بھی رہے، لیکن وہ جس مقصد کے لیے اتنی کٹھنائیاں جھیلتے رہے، اس کی تکمیل میں‌ کئی رکاوٹیں حائل تھیں، جس نے معراج صاحب کو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ 1970ء کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے۔دسمبر 1971ء میں انھیں‌ وزیرِ محنت و افرادی قوّت بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی تشکیل اور اس کے منشور کی تدوین میں جن ترقی پسند راہ نماؤں اور دانش وروں نے حصّہ لیا ان میں معراج محمد خان بھی شامل تھے۔ بھٹو صاحب نے ایک مرتبہ انھیں اپنا جانشین بھی قرار دیا تھا۔ بعد میں بھٹو صاحب سے سخت اختلافات کے باعث وہ پارٹی سے دور ہوگئے۔ یہ 1977ء کی بات ہے اور بعد میں معراج صاحب نے قومی محاذ آزادی بنائی، اور پھر وہ تحریک ِ انصاف سے جڑ گئے، لیکن اس پارٹی کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایّام میں عملی سیاست سے کنارہ کش ہوچکے تھے۔ معراج محمد خان کی دلیری اور سچائی کا چرچا عام تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کی بنائی ہوئی قومی محاذ آزادی کی بہت جلد ملک بھر میں شاخیں پھیل گئیں۔ بائیں بازو کے نوجوانوں میں یہ پارٹی خاص طور پر بہت مقبول تھی، اور بے وسیلہ ہونے کے باوجود جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور حکمراں طبقات کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی، کیونکہ اس کا منشور دو ٹوک انداز میں نادار طبقوں کی حکمرانی پر اصرار کرتا تھا۔ لیکن پھر یہ باب بھی بند ہوگیا۔

20 اکتوبر 1938ء کو معراج محمد خان نے برٹش انڈیا کے ایک چھوٹے سے قصبے قائم گنج میں آنکھ کھولی تھی۔ تقسیمِ ہند کے ایک برس بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں سیاسی اور عوامی حقوق کے لیے ان کی جدوجہد شروع ہوئی۔ معراج محمد خان کے ایک بھائی قلمی نام دکھی پریم نگری کے نام سے بہت مشہور تھے، وہ فلمی گیت لکھا کرتے تھے، جب کہ ایک بھائی منہاج برنا صحافی تھے جو پی ایف یو جے اور ایپنک یونین کے صدر رہے اور ان اداروں کو بنانے کے لیے کام کیا اور صحافت کی آزادی کے لیے قربانیاں بھی دیں۔

Comments

- Advertisement -