تازہ ترین

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول

کراچی: اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1...

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

زندگی کے پُر تموّج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک

فنون وہ ادبی مجلّہ تھا جو ممتاز ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے زیرِ ادارت پاکستان بھر میں مقبول ہوا اور اس مجلّے کی بدولت کئی تخلیق کار اور اہلِ قلم سامنے آئے۔ اس مجلّے کو شروع ہی سے صف اوّل کے ادیبوں اور شاعروں کا تعاون حاصل رہا اور قاسمی صاحب نے بڑی فراخ دلی سے نئے لکھنے والوں کو بھی اس میں جگہ دی۔

محمد خالد اختر اردو کے معروف ادیب ہیں‌ جو اپنے ناول چاکیواڑہ میں وصال کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں ہم احمد ندیم قاسمی سے ان کی رفاقت اور اپنے تخلیقی سفر سے متعلق محمد خالد اختر کی یادوں سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

’’1962ء میں ایک روح فرسا ملازمت کی بیڑیاں پہنے جن کے لیے میں بالکل نااہل تھا۔ صحّت، امنگ اور ذوقِ زیست میں لٹا ہوا، شدید خود رحمی اور خوف کا شکار، زندگی کے پُر تموج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک، میں لاہور آیا۔

ندیم سے ملاقاتیں ہونے لگیں، گو آغازِ دوستی کا وہ پہلا والہانہ شعلہ پھر نہ جلا۔ ندیم اپنی معاش کی کٹھن آزمائشوں کے باوجود میرے بارے میں حقیقتاً مُشَوَّش تھا۔ وہ ہر ممکن طور پر میرے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتا۔ وہ میری حالت پر افسوس کرتا اور رحم کا اظہار کرتا۔ کوئی آدمی کتنا ہی تباہ و برباد ہو، رحم کھایا جانا پسند نہیں کرتا اور اپنے اس ہمدرد، حوصلہ مند اور خلیق دوست کا میرے لیے تردّد مجھے بعض اوقات ناگوار گزرتا۔ ایسا رحم، میں سمجھتا ہوں، ایک طرح کی بے رحمی ہے۔

یہاں میرے بھارت بلڈنگ کے دفتر میں ایک دن ندیم میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے ایک ادبی مجلّہ ”فنون“ نکالنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا ڈیکلریشن لے لیا گیا ہے۔ دفتر کے کمرے کا بندوبست بھی ہو گیا ہے اور اس کا پہلا نمبر دو مہینے کے اندر اندر اشاعت پذیر ہو جائے گا۔ اس نے مجھ سے ”فنون“ کے لیے کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ میں کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ پچھلے پانچ چھے سال اپنی گھونٹ دینے والی مایوسی میں، میں نے اردو کی ایک سطر نہیں لکھی تھی۔ خط تک نہیں۔ اپنے فیک (fake) ہونے کو جانتے ہوئے میں نے مصنّف بننے کی خواہش کسی افسوس کے بغیر ترک کر دی تھی، لیکن اتنے اچھے ہمدم سے میں کیونکر انکار کرتا، جب کہ یہ اس کی دلی خواہش تھی کہ میں ”فنون“ کے لیے لکھوں۔

میں نے اس سے کچھ لکھنے کا وعدہ کرلیا۔ اس وقت سے میں باقاعدگی سے ”فنون“ میں لکھتا رہا ہوں۔ تبصرے، مزاحیہ مضمون، کہانیاں، اور اس مجلّے کے چند ہی شمارے ایسے ہوں گے جن میں میرا نام نہ چھپا ہو۔ ندیم نے ہمیشہ اپنی تعریف سے میری ہمّت بندھائی اور جو چیز بھی میں نے ”فنون“ کے لیے بھجوائی، اس میں شائع ہوئی۔ ان تبصروں اور مضامین کو کوئی دوسرا ایڈیٹر آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا، وہ ایک مربیانہ انداز اختیار کرتا اور زبان و بیان کی خامیوں کی طرف میری توجہ دلاتے ہوئے انہیں لوٹا دیتا۔ ”فنون“ میں میں جو چاہتا تھا لکھتا تھا۔ میرے بعض تبصرے ندیم کو اچھے اور متوازن نہیں لگے ہوں گے۔ تاہم وہ کسی قطع و برید اور ایک لفظ کے حذف کے بغیر چھپے۔ اس طرح میرے ادبی کیریئر کا پھر سے آغاز ہوا۔ میں اپنے فیک ہونے کی دل شکستگی کو بھول گیا۔ اپنے نام کو چھپا ہوا دیکھنے کی مسرّت کافی تھی۔

میری صحت اسی طرح خراب تھی، میرے معدے کا نظامِ ہضم درست نہ ہوا۔ مگر ندیم کے ”فنون“ نے مجھے منزل بہ منزل گرنے اور اپنے فطری ملکے (instinct) کی مکمل معدومی سے بچا لیا۔‘‘

Comments

- Advertisement -