تازہ ترین

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول

کراچی: اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1...

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

رازؔ سے مل کے آپ خوش ہوں‌ گے!

ابوالفاضل رازؔ چاند پوری کا اصل نام محمد صادق اور تخلص رازؔ تھا۔ اپنے بڑے بیٹے محمد فاضل کی عالمِ طفلی میں وفات کے بعد اس مناسبت سے ابوالفاضل کنّیت اختیار کر لی۔

رازؔ چاند پوری 25 مارچ 1892ء کو قصبہ چاند پور ضلع بجنور (یو۔ پی) کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گھر میں تعلیم و تعلم اور علم و حکمت کے چرچے تھے، اس لیے رازؔ کی تعلیم و تربیت کی جانب خصوصی توجہ دی گئی۔ دستور کے مطابق رازؔ چاند پوری نے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز مکتب سے کیا اور پوری توجہ کے ساتھ تعلیم حاصل کی، چنانچہ اپنی ذاتی دل چسپی اور فطری ذہانت کے سبب اردو اور فارسی کی مروجہ تعلیم سے بہت جلد فراغت حاصل کرلی۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول مراد آباد سے اردو اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی، مگر 1911ء میں گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ اور معاشی تنگی کے سبب تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ لیکن ادبی ذوق اور مطالعے کا شوق برابر قائم رہا۔ یہی وجہ تھی کہ اردو اور انگریزی کے ساتھ عربی اور ہندی میں بھی کافی استعدا د پیدا کر لی تھی۔
دورانِ تعلیم ہی طبعی رجحان شاعری کی جانب ہو چکا تھا۔ بہت جلد شعر موزوں بھی کرنے لگے۔ چوں کہ والد صاحب خود ایک اچھے شاعر اور اردو اور فارسی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، جب اپنے صاحبزادے کی موزونیٔ طبع کا علم ہوا، تو اُن کی حوصلہ افزائی کی، بلکہ اُن کے ذوقِ شعری کو اُبھارنے اور معیار کو نکھارنے میں بھی کافی مدد کی۔ ملازمت کے سلسلے میں جب آگرہ میں مقیم ہوئے تو علّامہ سیمابؔ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زانوئے ادب تہ کیا۔ رازؔ چاند پوری نے فطری ذوق کے سبب بہت کم عرصے میں شعر گوئی میں اعلیٰ صلاحیت اور فنی پختگی حاصل کر لی۔ وہ اپنی ایک غزل میں فرماتے ہیں؎

سیکھی ہے رازؔ میں نے سیمابؔ نکتہ داں سے
یہ رمزِ شعر گوئی، یہ طرزِ خوش نوائی

رازؔ چاند پوری کا علامہ سیمابؔ کے ساتھ بے حد قریبی تعلق رہا، دونوں کے درمیان برابر ملاقات کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ پھر رفتہ رفتہ استاد اور شاگرد کے توسط سے قائم ہونے والا یہ رشتہ ایک مضبوط یارانہ تعلقات تک جا پہنچا جو آخر عمر تک قائم رہا۔ جس کی مناسبت سے رازؔ چاند پوری لکھتے ہیں: ’’جب تک میں آگرہ میں رہا، ہر ہفتہ سیمابؔ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور وہ بھی کبھی کبھی غریب خانے پر تشریف لاتے رہے۔ رفتہ رفتہ تعلقات بڑھ کر دوستی کی حد تک پہنچ گئے اور سیمابؔ صاحب کی زندگی کے آخر دن تک قائم رہے۔‘‘

رازؔ چاند پوری کی زندگی کے بیشتر ایّام مصائب و آلام میں گزرے۔ ایک طرف روزگار کا غم تھا تو دوسری جانب تین بچّوں کی موت نے انھیں اور ہی زیادہ مغموم کر دیا تھا۔ پھر رفیقۂ حیات کی مسلسل کی علالت اور 1955ء میں داغِ مفارقت دے جانے کے باعث اُنھیں کبھی سکون میسر نہ ہو سکا۔ انھیں ملازمت کے سلسلے میں کئی بار نقل مکانی بھی کرنی پڑی مگر اِن تمام مشکلات کے باوجود وہ جہاں بھی رہے، خود کو شعر و ادب سے وابستہ رکھا۔

رازؔ چاند پوری نے اپنے تجربات و محسوسات کی روشنی میں اپنے خیالات کو جس فن کارانہ خوبی کے ساتھ پیش کیا، اس سے اُن کے فکر و فن اور شاعرانہ برتری کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے شاعری کے ذریعہ زندگی کے عام مسائل کو جس خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے اس سے ادب کا عام قاری بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے باوجود وہ خاصی حد تک گوشہ نشیں ہی رہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ؎

مشکل نہیں کہ گرمیِ محفل نہ بن سکوں
لیکن میں اپنے رنگِ طبیعت کو کیا کروں

اور یہ شعر دیکھیے۔

گم نام ہوں، گم نام سہی بزمِ ادب میں
اے رازؔ یہ کیا کم ہے کہ بدنام نہیں ہوں

ایک ادیب اور شاعر کی حیثیت سے رازؔ چاندپوری نے کئی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصانیف اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ اُن کی مطبوعہ کتابوں میں ’زرّیں افسانے، ’دنیائے راز، ’نوائے زارؔ، ’داستانِ چند (یادداشتیں اور سوانح علامہ سیمابؔ اکبرآبادی) وغیرہ شامل ہیں۔ رازؔ چاند پوری کی شعری و نثری کتابیں ادب میں ایک اضافہ ضرور تھیں، مگر اس دنیا میں انھیں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ سزاوار تھے۔ 1955ء کے بعد وہ شعر و ادب سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور چودہ سال گوشہ نشینی میں گزار کر 25 اگست 1969ء کو دنیا سے رخصت ہوئے۔

رازؔ چاند پوری بنیادی طور پر غزل گو شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن انھوں نے بے شمار نظمیں بھی کہی ہیں۔ اُنھوں نے زندگی کے مختلف مسائل و موضوعات پر قلم اٹھایا، اور نظموں میں ہیئت اور بیان کے نئے تجربے بھی کیے، مگر اُن کے یہاں عام طرزِ شاعری سے ہٹ کر زیادہ تر داخلی رنگ کی جلوہ گری دیکھنے کو ملتی ہے۔

رازؔ کی ایک بڑی شاعرانہ خصوصیت یہ ہے کہ اُن کی بیشتر تخلیقات موسیقیت اور غنائیت سے بھرپور ہوتی ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو عام مقبولیت حاصل ہوئی۔

(حوالہ جات: رازؔ چاند پوری، داستانِ عہد گل، نوائے رازؔ، عبدالقادر سروری، جدید اردو شاعری)

Comments

- Advertisement -