اشتہار

حقیقی زندگی کی ریپنزل، جو اپنی زندگی کے 25 برس ایک تنگ و تاریک کمرے میں قید رہی

اشتہار

حیرت انگیز

اگر آپ نے بچپن میں بہت سی کہانیاں پڑھ رکھی ہیں تو یقیناً آپ ریپنزل شہزادی کے بارے میں بھی جانتے ہوں گے جس کے بال بہت لمبے تھے اور جو کئی فٹ اونچے مینار میں قید تھی۔

یہ کہانی دراصل ایک شہزادی اور جادوگرنی کے بارے میں تھی، جادوگرنی ایک بادشاہ کے محل سے اس کی ننھی سی بیٹی کو اغوا کر کے لے آتی ہے اور کئی فٹ اونچے مینار میں قید کردیتی ہے۔

اس مینار میں کوئی دروازہ نہیں ہوتا اور یہاں سے باہر کی دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ ایک کھڑکی تھی جو مینار کی اونچائی پر موجود تھی۔

- Advertisement -

جب ننھی شہزادی بڑی ہوئی تو اس کے بال بہت خوبصورت، اور لمبے ہوگئے۔ شہزادی کے بال اتنے لمبے تھے کہ جادوگرنی ان بالوں کو کھڑکی سے باہر لٹکا دیتی اور ان کے ذریعے لٹک کر مینار سے نیچے اترتی۔

اس کہانی پر کئی کارٹونز اور ایک اینی میٹڈ فلم سیریز بھی بن چکی ہے۔ یہ کہانی دراصل تیسری صدی کے ایک سینہ بہ سینہ چلتے قصے سے ماخوذ ہے جس میں ایک حسین لمبے بالوں والی لڑکی کو اس کے باپ نے قید کر رکھا تھا۔

لیکن ایسی ایک کہانی انیسویں صدی کی بھی ہے، اور یہ کہانی ریپنزل فلم جیسی نہ تو خوبصورت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی ہیپی اینڈنگ ہے۔

یہ کہانی ہے بلانشے مونیر کی جو مارچ 1849 میں فرانس کے ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئی۔

بلانشے بہت حسین تھی اور لیکن اس کی عادتیں کسی حد تک باغیانہ تھیں جو اس کے روایات میں جکڑے اور خود ساختہ تہذیب یافتہ خاندان کے لیے ناقابل قبول تھیں، یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے خاندان کے لیے بے حد ناپسندیدہ تھی۔

بلانشے کے حسن کی وجہ سے کئی امیر گھرانوں کے مردوں نے اس کی طرف دوستی اور شادی کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن بلانشے نے سب کا ہاتھ جھٹک دیا، اور پھر بالآخر ایک معمولی وکیل کی ذہانت کے سامنے دل ہار بیٹھی۔

یہ بات اس کے خاندان کو سخت طیش میں لانے والی تھی، وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کسی معمولی خاندان کے شخص سے کوئی رشتہ قائم کریں۔ انہوں نے بلانشے کو اس سے شادی کرنے سے سختی سے منع کردیا۔

جب بلانشے نے اپنی بات منوانے کے لیے ضد کی تو اس کے والدین نے نہایت سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ایک تنگ و تاریک کمرے میں باندھ کر قید کردیا، اور پھر بلانشے نے اس اندھیرے کمرے میں اپنی زندگی کے 25 برس گزار دیے۔

اس دوران اس کا خاندان لوگوں کے پوچھنے پر ان سے مختلف بہانے بناتا رہا، اس کے والدین نے کہا کہ بلانشے پڑھنے کے لیے انگلینڈ کے ایک بورڈنگ اسکول میں چلی گئی، پھر کہا کہ وہ اسکاٹ لینڈ منتقل ہوگئی ہے۔

لوگ کچھ عرصے تک بلانشے کے بارے میں دریافت کرتے رہے اور پھر اسے بھول بھال کر اپنی زندگی میں مگن ہوگئے۔ وہ وکیل جس کی وجہ سے بلانشے پر یہ مصیبت آئی، اس نے بھی بلانشے کو ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی بلکہ اسے دھوکے باز سمجھ کر اپنی زندگی میں مصروف ہوگیا۔

بلانشے اس دوران نہایت غیر انسانی حالات میں اپنی زندگی گزارتی رہی، اسے بچا کھچا کھانا دیا جاتا تھا جس کی وجہ وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی اور اس کے بال بڑھ کر اس کی ایڑھیوں تک جا پہنچے۔

27 سال کی عمر سے قید کی جانے والی بلانشے اسی حال میں جب 52 سال کی ہوئی تو اس کے والد چل بسے، بلانشے کو لگا کہ شاید اب اسے رہائی کا پروانہ مل جائے گا، لیکن اس کی والدہ اور اب ان کے ساتھ اس کا بھائی بھی موجود تھا۔

لیکن پھر یہ قید بالآخر ختم ہوئی، گھر کے ملازمین جو ایک عرصے سے سفاکی کی یہ داستان دیکھ رہے تھے، انہوں نے پولیس کو ایک گمنام کال کردی۔

پولیس اس اندھیرے کمرے میں پہنچی اور وہاں موجود دروازے اور تمام کھڑکیاں توڑ دیں تاکہ کمرے میں روشنی اور ہوا آئے۔

بلانشے کی والدہ اور بھائی کو گرفتار کرلیا گیا اور دونوں پر مقدمہ چلایا گیا، لیکن اس کی والدہ مقدمے کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی دم توڑ گئیں۔

بعد میں عدالت نے بلانشے کے بھائی کو صرف 15 ماہ قید کی سزا سنائی۔

رہائی ملنے کے بعد بلانشے نے اپنی زندگی کے بقیہ روز ایک نفسیاتی اسپتال میں گزارے، اپنی زندگی کا طویل حصہ غیر فطری اور غیر انسانی قید اور حالات میں گزارنے کے بعد وہ اس قابل نہیں رہی تھی کہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ سکے۔

نفسیاتی اسپتال میں مختلف علاج کرواتے اور مختلف دوائیں کھاتے وہ بالآخر 64 سال کی عمر میں چل بسی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں