تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

معروف فیچر نگار ریاض بٹالوی کا تذکرہ

کوچۂ صحافت میں ریاض بٹالوی اپنی مستند، جامع اور معلومات افزا تحریروں کے سبب پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ان صحافیوں میں‌ سے تھے جنھوں نے فیچر نگاری میں زورِ قلم دکھایا اور منفرد پہچان بنائی۔ ریاض بٹالوی 2003ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

ایک زمانہ تھا جب اخبارات اور رسائل کثیر تعداد میں شایع ہوتے تھے اور انھیں وہ قارئین میسر تھے جو باخبر رہنے کے ساتھ اپنے ذوق و شوق اور دل چسپی کی تحریریں پڑھنا پسند کرتے تھے۔ اخبارات کے رنگین صفحات یا میگزین میں فیچر اور تفصیلی رپورٹیں شایع ہوتی تھیں‌ جن کو بڑی توجہ اور شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ فیچر نگاری صحافتی تحریروں کی اہم اور توانا قسم تھی اور اسے تخلیقی صحافت مانا جاتا تھا۔ ریاض بٹالوی اسی میدان میں معروف ہوئے۔

ریاض بٹالوی نے اپنے فنِ تحریر میں مہارت سے کام لے کر کئی فیچر اور خصوصی مضامین قارئین کو دیے جس کے لیے ان کا علم، وسیع مشاہدہ اور تجربہ و تحقیق بھی قابلِ ذکر ہے۔انھوں نے ادبی پیرائے میں معیاری فیچر قارئین کے سامنے پیش کیے جو بہت مقبول ہوئے۔

اردو صحافت میں ریاض بٹالوی کا سفر کئی دہائیوں تک جاری رہا اور علم و تحقیق پر مبنی ان کے خصوصی مضامین بالخصوص مشرق کی زینت بنے جو اپنے زمانے کا ایک مشہور روزنامہ تھا۔ ریاض بٹالوی کا تعلق متحدہ پنجاب کے ضلع گورداسپور سے تھا۔ وہ قصبہ بٹالہ میں 5 فروری 1937ء کو پیدا ہوئے، ان کا نام ریاضُ الحسن رکھا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ان کا خاندان ہجرت کر کے گجرات آ بسا تھا۔

انھوں نے زندگی میں کئی مشکلات کا سامنا کیا اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کے لیے تگ و دو شروع کر دی۔ مقامی سطح پر صحافت سے وابستہ ہوئے لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔ بعد میں گجرات سے نکلنے والے مختلف علاقائی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا، اور پھر انھوں نے تخلیقی سفر کا آغاز کرتے ہوئے افسانے تحریر کیے۔ اس کے ساتھ ریاض بٹالوی نے صحافت کو مستقل پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا اور راولپنڈی چلے گئے جہاں اس دور کے معروف صحافی اور تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کے ”کوہستان“ سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔ یہاں انھوں نے کام کیا اور سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا، لیکن 1963ء میں لاہور سے ”روزنامہ مشرق“ کا آغاز ہوا تو ریاض بٹالوی اس اخبار سے وابستہ ہوگئے۔

ریاض بٹالوی نے ایّوب خان کے دور میں فیچر نگاری کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں افسانوی انداز اپنایا جسے بہت پذیرائی ملی۔ ان کی مقبولیت بڑھتی گئی اور اخبارات میں ریاض بٹالوی کی تحریروں کو نمایاں کرکے شایع کیا جانے لگا۔ اردو صحافت میں فیچر نگاری کو ریاض بٹالوی کی بدولت ایک نئی فضا میں پرواز کرنے کا موقع ملا۔ ریاض بٹالوی اپنے ساتھیوں سے موضوعات پر مشاورت کرتے اور مدیرِاعلیٰ کی منظوری کے بعد اس کے لیے مواد اکٹھا کرنے نکل جاتے، اس کے لیے وہ فیچر نگار کی حیثیت سے لوگوں سے ملتے، مختلف مقامات پر جاتے اور جو حقائق اور معلومات اکٹھی کرتے انھیں افسانوی انداز میں‌ سپردِ قلم کر دیتے۔ ریاض بٹالوی کا باتصویر فیچر اخبارات میں نمایاں‌ جگہ پاتا۔ انھوں نے سلگتے ہوئے مسائل اور حساس موضوعات پر بڑی محنت اور لگن سے کام کیا اور اپنے فیچر منفرد اسلوب میں قارئین تک پہنچائے۔ یہ فیچر باقاعدگی سے ”ایک حقیقت، ایک افسانہ“ کے عنوان سے شایع ہوتے تھے۔

پاکستان کے اس نام ور صحافی اور مقبول فیچر نگار کو حکومتِ پاکستان نے 1986ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ مشرق کے علاوہ ریاض بٹالوی نے کئی اخبارات کے لیے کالم اور فیچر لکھے۔ تاہم رونامہ مشرق کے ساتھ ان کا تعلق تیس سال سے زائد عرصہ تک رہا۔

ریاض بٹالوی کو لاہور میں میکلوڈ روڈ کے مومن پورہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -