اشتہار

سبطین فضلی کا تذکرہ جن کی فلم ’’دوپٹہ‘‘ کلاسک کا درجہ رکھتی ہے

اشتہار

حیرت انگیز

بٹوارے سے قبل ہندوستان میں‌ بحیثیت فلم ساز دو بھائیوں کو ’’فضلی برادران‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ ان میں سے ایک سبطین فضلی تھے۔

اُس دور میں کلکتہ فلم سازی کا مرکز تھا۔ وہاں فلم کے مختلف شعبوں کی کئی شخصیات، آرٹسٹ اور تخلیق کار اپنے فن و کمال کی بدولت نام کما رہے تھے۔ سبطین فضلی نے اپنے بھائی حسنین فضلی کے ساتھ فلم سازی کے شعبے میں کلکتہ ہی سے نام و مقام بنایا تھا۔ بعد میں‌ فلم انڈسٹری بمبئی منتقل ہوگئی اور پھر تقسیمِ ہند کے نتیجے میں سبھی سرحدوں‌ کے اِدھر اُدھر رہ گئے۔ بٹوارے کے بعد لاہور میں مقیم سبطین فضلی نے صرف تین ہی فلمیں بنائی تھیں، لیکن یہ فلمیں شان دار اور سبطین فضلی کے کمالِ فن کی یادگار ہیں۔ یہ وہ فلمیں تھیں جن کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔

پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر ہدایت کار کا انتقال 25 جولائی 1985ء کو ہوا تھا اور یہ تحریر اُن کی برسی کی مناسبت سے شایع کی جارہی ہے۔ فلمی دنیا اور فن کاروں پر کتابوں اور اس دور کے معروف صحافیوں کے نوکِ قلم سے نکلے ہوئے مضامین کے مطابق سبطین فضلی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ وہ خوش اخلاق بھی تھے اور خوش لباس بھی۔ سبطین فضلی اور ان کے بھائی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔

- Advertisement -

فلم ساز سبطین فضلی نے 9 جولائی 1914ء کو بہرائچ (اتر پردیش) کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا فلمی کیریئر متحدہ ہندوستان میں شروع ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد یہاں بننے والی فلم ’’دوپٹہ‘‘ کے ہدایت کار وہی تھے۔ یہ سبطین فضلی کی وہ کام یاب ترین فلم تھی جسے پاکستانی فلموں میں کلاسک کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سبطین فضلی نے ’’آنکھ کا نشہ‘‘ اور ’’دو تصویریں‘‘ نامی فلمیں بنائیں جو بزنس کے اعتبار سے ناکام شائقینِ سنیما کی توجہ حاصل نہیں کرسکیں، لیکن بطور فلم ساز یہ سبطین صاحب کا شان دار کام ہے اور محنت اور لگن کے ساتھ سبطین فضلی کی فنی مہارت کا عمدہ نمونہ ہیں‌۔

کہا جاتا ہے کہ فلمی دنیا میں سبطین فضلی کا نام زندہ رکھنے کو اُن کی فلم دوپٹہ ہی کافی ہے۔ سبطین فضلی نے ’’دوپٹہ‘‘ میں گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں کے ساتھ ایک نیا ہیرو اجے کمار کے نام سے پردے پر متعارف کروایا تھا۔ اس فلم میں‌ سدھیر نے بھی کام کیا تھا۔ 1952ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم بے حد کام یاب رہی۔ اُس دور میں آج کی طرح جدید کیمرے اور دوسری ٹیکنالوجی موجود نہیں‌ تھی، لیکن سبطین فضلی نے اپنی صلاحیتوں سے کام لے کر سنیما کو ایک معیاری فلم دی۔

فلم ساز سبطین فضلی کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں