تازہ ترین

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

ساگر سرحدی: بولی وڈ کے معروف رائٹر اور اردو ادیب کا تذکرہ

‘سلسلہ’ اور ‘کہو نہ پیار ہے’ جیسی کام یاب فلموں کے مصنّف ساگر سرحدی نے 2021ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ بولی وڈ میں انھیں ایک زبردست مکالمہ نگار، فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا جب کہ دنیائے ادب میں وہ باکمال افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس مشہور تھے۔

ساگر سرحدی کا پورا نام گنگا ساگر تلوار تھا۔ وہ 11 مئی 1933ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ساگر سرحدی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے جہاں انھوں نے فلم انڈسٹری میں اپنی پہچان بنائی اور اردو ادب میں اپنی تخلیقات اور طرزِ نگارش کے سبب نام و مقام پیدا کیا۔

ساگر سرحدی نے بالی وڈ کی درجنوں فلموں کے اسکرین پلے اور مکالمے لکھے، کہانی نویس اور مکالمہ نگار کے طور پر ان کی شہرت کا آغاز 1976ء میں بننے والی فلم ‘کبھی کبھی’ سے ہوا، اس فلم میں امیتابھ بچن اور راکھی نے کام کیا تھا، اس فلم کی کام یابی کے بعد انھوں نے فلم ‘بازار’ کے ہدایت کار کے طور پر قسمت آزمائی اور کام یاب رہے۔ اس فلم میں مشہور اداکارہ سمیتا پٹیل اور نصیرالدین شاہ نے کام کیا تھا۔ ساگر سرحدی فاروق شیخ، نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی کی 1984ء میں بننے والی فلم ‘لوری’ کے پروڈیوسر بھی تھے۔

ان افسانوں کا مجموعہ ‘جیون جانور’ کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔ ساگر سرحدی کے تحریر کردہ مشہور ڈراموں میں ‘بھگت سنگھ کی واپسی، خیال کی دستک، راج دربار اور تنہائی’ شامل ہیں۔

ممبئی میں‌ وفات پانے والے ساگر سرحدی کو دل کے عارضے کے سبب اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ 88 سال کی عمر میں‌ چل بسے تھے۔

سلام بن رزاق نے ساگر سرحدی پر ایک مضمون رقم کیا تھا جس سے چند پارے ہم یہاں نقل کررہے ہیں:

ستّر کی دہائی میں ان کے دو چار افسانے بھی مختلف رسائل میں شایع ہو چکے تھے۔ بطور ایک پلے رائٹر اور فلمی مکالمہ نگار ان کی شہرت بامِ عروج پر تھی۔ اس زمانے میں مرحوم محمود چھاپرا کے مکان پر اکثر ادبی محفلیں منعقد ہوتی رہتی تھیں۔ جہاں افسانے، نظمیں اور مضامین وغیرہ سنائے جاتے اور شرکائے محفل ان پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ ان محفلوں میں باقر مہدی، یوسف ناظم، فضیل جعفری وغیرہ پیش پیش رہتے تھے۔ انور خان، یعقوب راہی اور میں ان محفلوں میں نوواردانِ بساط کی حیثیت سے شریک ہوتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری ذہنی تربیت میں ان محفلوں کا بڑا ہاتھ ہے۔

انہیں دنوں کسی محفل میں ساگر سرحدی نے اپنا ایک افسانہ سنایا جس کا عنوان غالباً ’’گویندا آلارے‘‘ تھا۔ اس زمانے میں علامتی اور استعاراتی افسانوں کا رواج تھا اور ساگر سرحدی کا افسانہ خالص بیانیہ رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ تو یاد نہیں کہ افسانہ پر کیا گفتگو ہوئی مگر مجھے اس افسانے سے بڑا حوصلہ ملا تھا کیوں کہ میں بھی اپنی بیشتر کہانیاں، بیانیہ، اسلوب میں ہی لکھا کرتا تھا اور اکثر باقر مہدی کی تنقید کا نشانہ بنتا تھا۔

ساگر سرحدی سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔ ملاقات کیا تھی بس میں نے ساگر سرحدی کو پہلی بار اس محفل میں دیکھا تھا۔ ان کی صاف ستھری پُرسکون شخصیت اور سفید براق لباس نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ اس کے بعد ساگر صاحب سے دو تین بار ادبی نشستوں میں ہی سرسری ملاقات ہوئی۔ فلم بازار کی کام یابی پر ان کے فلیٹ میں ایک دعوت میں بھی شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔

ساگر صاحب کئی خوبیوں کے مالک ہیں ان میں سے ایک ان کی مہمان نوازی ہے، اچھے دنوں میں ان کے فلیٹ میں آئے دن پارٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ وہ دوستوں کے دوست ہیں۔ ملنے والوں سے بہت جلد بے تکلف ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شخصیت کی ایک اور خوبی بھی ہے کہ وہ بے تکلفی میں اکثر دوستوں کو گالیوں سے نوازتے ہیں۔ بلکہ جس سے جتنی قربت ہوتی ہے اسے اتنی زیادہ گالیاں دیتے ہیں۔

ساگر صاحب کو پڑھنے سے زیادہ کتابیں خریدنے کا شوق ہے، ان کے پاس انگریزی، ہندی اور اردو کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ ہے۔ جب بھی کوئی نئی کتاب آتی ہے اور انہیں خبر ہوتی ہے وہ خرید لیتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -