تازہ ترین

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

اردو غزل کی تثلیث اور شاد عظیم آبادی

اردو شاعری کا ایک بڑا نام شاد عظیم آبادی کا ہے جن کی آج برسی ہے۔ شاد عظیم آبادی اردو کے ایک اہم شاعر ہی نہیں‌، محقق، تاریخ داں اور اعلیٰ پایہ کے نثر نگار بھی تھے۔

مشہور نقّاد کلیم الدین احمد نے انھیں اردو غزل کی تثلیث میں میرؔ اور غالبؔ کے بعد تیسرے شاعر کے طور پر شامل کیا۔ مجنوں گورکھپوری کے قلم نے انھیں نم آلودگیوں کا شاعر لکھا۔ علّامہ اقبال بھی ان کی سخن گوئی کے معترف تھے۔ شاد نے اردو غزل کو نئی شناخت دی جس کا اعتراف ان کے ہم عصر اور بعد میں آنے والوں نے بھی کیا۔

اردو کے ممتاز نقّاد، ادیب اور شاعر شمس الرّحمٰن فاروقی نے لکھا ہے کہ ”شاد کی اہمیت ادبی بھی ہے اور تاریخی بھی۔ تاریخی اس معنی میں کہ جب غزل کے اوپر حملے ہو رہے تھےاور چاند ماریاں ہو رہی تھیں اس زمانہ میں شاد غزل کے علم کو بلند کئے رہے۔ ادبی بات یہ ہوئی کہ کلاسیکی غزل کے کئی رنگوں کو اختیار کر کے انھیں سچّے اور خالص ادب میں پیش کرنا شاد کا کارنامہ ہے۔”

شاد کی شاعری میں طرزِ ادا اور اسلوب خوب اور پُر وقار ہے اور ان کے اشعار میں‌ جو شیرینی اور دل کشی ہے اس میں‌ شاد عظیم آبادی نے زندگی اور اس کی ناہمواریوں کو بہت بامعنیٰ‌ اور اثرانگیزی سے بیان کیا ہے۔ شاد کے اشعار میں سوز اور کسک ملتی ہے جس کے ساتھ بصیرت افروزی بھی نمایاں ہے۔ شاد عظیم آبادی کا امتیاز کلاسیکی ہنر کو ایک نئی سطح پر آزماتے ہوئے اپنی بات کہنا ہے۔ وہ روایت شکن نہیں بلکہ اس میں‌ توسیع کرنے والے شاعر تھے جن کی انفرادیت ان کا وہ شعور اور خود آگاہی بھی ہے جس سے وہ شعراء‌ کے درمیان اپنی پہچان بناتے ہیں۔

شاد عظیم آبادی 1846ء میں عظیم آباد (پٹنہ) کے ایک رئیس گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید علی محمد تھا۔ ان کے والد سید تفضل حسین کا شمار پٹنہ کے عمائدین میں ہوتا تھا۔ ان کے گھر کا ماحول مذہبی اور ادبی تھا۔ شاد بچپن سے ہی نہایت ذہین تھے اور دس برس کی عمر میں ہی انھوں نے فارسی زبان و ادب پر خاصی دسترس حاصل کر لی تھی۔ اسی زمانے میں‌ شاعری بھی شروع کردی۔ شاد نے سید الطاف حسین فریاد کی شاگردی اختیار کی۔ بطور شاعر شاد کی شہرت کا آغاز اس وقت ہوا جب اس وقت کے معتبر ادبی رسالہ ’’مخزن‘‘ کے مدیر سر عبد القادر سروری پٹنہ آئے اور ان کی ملاقات شاد سے ہوئی۔ وہ شاد کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے اور ان کا کلام اپنے رسالہ میں شائع کرنے لگے۔

شاد نے غزل کے علاوہ مرثیے، رباعیاں، قطعات، مخمس اور مسدس بھی لکھے۔ وہ اچھے نثر نگار بھی تھے۔ انھوں نے متعدد ناول لکھے جن میں ان کا تحریر کردہ ’’پیر علی‘‘ پہلی جنگ آزادی کے موضوع پر اردو کا پہلا ناول ہے، اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہوا۔ ’’شاد کی کہانی شاد کی زبانی‘‘ ان کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ 1876ء میں پرنس آف ویلز ہندوستان آئے تو انھوں نے شاد سے بہار کی تاریخ لکھنے کی فرمائش کی۔ شاد نے تین جلدوں میں بہار کی تاریخ لکھی۔ ان کی کتاب ’’نوائے وطن‘‘ پر بہار میں خاصا طوفان کھڑا ہوا تھا۔ اس کتاب میں شاد نے عظیم آباد اور بہار کے دوسرے مقامات کے شرفاء کی زبان میں خرابیوں کی نشان دہی کی تھی۔ اس پر بہار کے اخبارات و رسائل میں انھیں‌ کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ شاد سیاسی، ملّی اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔ وہ پٹنہ میونسپلٹی کے رکن اور میونسپل کمشنر بھی رہے۔ 1889ء میں انھیں آنریری مجسٹریٹ بھی نامزد کیا گیا۔ شاد نے ایک آسودہ زندگی گزاری اور مال و دولت کے سبب کئی ملازم ان کے ساتھ ہوتے تھے لیکن زندگی کے آخری ایّام میں انگریز کے وظیفہ خوار رہے۔

شاد عظیم آبادی نے ساری زندگی تصنیف و تالیف میں گزاری۔ لیکن ان کی صرف دس کتابیں شایع ہوسکیں۔ 8 جنوری 1927ء کو شاد کا انتقال ہو گیا تھا۔

Comments

- Advertisement -