اشتہار

یومِ وفات:‌ منفرد طرزِ‌ گائیکی اور لوک گیت پرویز مہدی کی پہچان ہیں

اشتہار

حیرت انگیز

پرویز مہدی وہ پاکستانی گلوکار تھے جو اپنے منفرد طرزِ گائیکی اور بالخصوص لوگ گیتوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ وہ عظیم گلوکار مہدی حسن کے پہلے اعلانیہ شاگرد ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے اور انہی کے نام کی نسبت سے خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا۔ پرویز مہدی کی گائیکی پر اُن کے استاد کا رنگ اس قدر غالب تھا کہ اکثر سننے والے یہ گمان کرتے کہ وہ خان صاحب کو سن رہے ہیں۔

پرویز مہدی نے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور ان کے گائے ہوئے لوک گیتوں کو خاص طور پر مقبولیت ملی۔ پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 57 برس تھی۔

عظیم گلوکار مہدی حسن کے اس شاگرد نے 70ء کی دہائی میں ریڈیو اسٹیشن لاہور پر ایک گیت ’میں جانا پردیس’ گایا تھا اور اسی گیت سے ان کی ملک گیر پہچان کا آغاز ہوا تھا۔ بنیادی طور پر پرویز مہدی غزل کے گائیک تھے۔ وہ اپنے استاد مہدی حسن کے رنگ میں گاتے تھے اور یہ بھی ان کی مقبولیت کا ایک سبب تھا۔ پرویز مہدی کا اصل نام پرویز حسن تھا لیکن انھوں نے استاد سے عقیدت کی بنا پر اپنے نام کے ساتھ مہدی کا اضافہ کرلیا اور اسے وہ اپنے لیے سب سے بڑا اعزاز گرادنتے تھے۔

- Advertisement -

پرویز مہدی کا سفر تیس سال پر محیط تھا جس میں انھوں نے کئی شعرا کے کلام کو اپنی آواز دی اور وہ سب مشہور ہوئے۔ گلوکار پرویز مہدی نے کئی لوک گیتوں کو بھی خوب صورتی سے گایا جو بہت مقبول ہوئے۔

14 اگست 1947ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے پرویز مہدی کے والد بشیر حسین راہی ریڈیو پاکستان کے ایک مقبول گلوکار تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں‌ کہ فنِ گائیکی انھیں ورثے میں‌ ملا تھا۔ پرویز مہدی نے ابتدا میں جے اے فاروق سے موسیقی کی تربیت حاصل کی لیکن پھر مہدی حسن کی شاگرد بن گئے۔

گلوکار پرویز مہدی کو حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ پرویز مہدی کی آخری آرام گاہ لاہور میں ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں