تازہ ترین

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

سپریم کورٹ کا عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم

اسلام آباد : سپریم کورٹ کا عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کوئی سیاسی رہنما اور کارکن عدالت نہیں آئے گا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری پرہائیکورٹ فیصلے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے درخواست پرسماعت کی، سپریم کورٹ کے بینچ میں جسٹس محمدعلی مظہر اورجسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کوعمران خان کوساڑھے 4بجے پیش کرنےکا حکم دے دیا اور کہا کہ کوئی سیاسی رہنما اور کارکن عدالت نہیں آئےگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہونے دیا تو نجی تنازعات بھی عدالتوں میں ایسےنمٹائےجائیں گے، بطور چیف جسٹس ہائیکورٹ ایکشن لیا اور الگے سال کوئی واقعہ نہیں ہوا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی کی ہے۔

جسٹس اطہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کیلئے دفاع کرنامشکل ہورہا ہے، دوسری سیاسی جماعتوں کیساتھ بھی بہت برا سلوک ہوا ہے، حالیہ گرفتاری سے ہر شہری متاثر ہورہاہے، عدالت سےگرفتاری بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وارنٹ گرفتاری کی قانون حیثیت پررائےنہیں دینا چاہتے، کیا مناسب نہیں ہوگا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کیا جائے اور عمران خان کی درخواست ضمانت پرعدالت فیصلہ کرے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں بہت کچھ ہوچکا ہے، وقت آگیا ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم ہو، گرفتاری کی وہی سے ریسورس کرناہوگاجہاں سے ہوئی تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ بنیاد غیرقانونی ہو تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی، وقت آگیا ہے کہ مستقبل کیلئے مثال قائم کی جائے، جس اندازمیں گرفتاری کی گئی برداشت نہیں کی جاسکتی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران خان کو گرفتار کس نے کیا تھا؟ وکیل نے بتایا کہ آئی جی اسلام آباد کے مطابق انہوں نے وارنٹ کی تعمیل کرائی، نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے مطابق پولیس نے وارنٹ کی تعمیل کرائی تھی۔

چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ کیا عدالتی حکم کے مطابق پولیس کارروائی کی نگرانی کررہی تھی، رینجرز کے کتنے اہلکار گرفتاری کیلئے موجود تھے ؟ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ رینجرز نے پولیس کے ماتحت گرفتاری کی تھی،رینجرز اہلکار عمران خان کی سکیورٹی کیلئے موجودتھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے تو ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کسی قانون کےتحت رجسٹرار سے اجازت لینے کی پاپندی نہیں تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا شیشے اور دروازے توڑے گئے؟ ضابطہ فوجداری کی دفعات 47سے50تک پڑھیں،بائیو میٹرک برانچ کی اجازت کےبغیربھی شیشےنہیں توڑے جاسکتے۔

جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو کہیں اور گرفتار کرناممکن نہیں تھا،عمران خان ہر پیشی پر ہزاروں افراد کو کال دیتے تھے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تو واضح ہوگیا کہ کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے نیب کے پراسکیوٹر کو ٹھنڈا رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کچھ تحمل سے سنیں گے۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ نیب آزاد ادارہ ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب آزاد ادارہ ہے اور وارنٹ کی تعمیل وفاقی حکومت نےکی، سارا ملبہ تووفاقی حکومت پر آ رہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے نیب کے سامنےمریم نواز کیسز کا ذکر کیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ اسی لئے ہم کہہ رہے ہیں کہ پہلے سےبہتری کامعاملہ ہو،جب ملزم انصاف کیلئےعدالت آیاتواس کا حق روک دیا گیا، یہ روایت پڑ گئی کہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیاجائیگا تو تاثر جائے گا عدالتیں ریاست کی سہولت کار ہیں۔

جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں عدالتوں کو غیر جانبدار رکھنا ہے، یہ روایت پڑ گئی تولوگ ذاتی مسائل بھی احاطہ عدالت میں حل کرناشروع کردیں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا احاطہ عدالت میں جو ہوا وہ انصاف کی راہ میں بُری مثال قائم کرے گا، اس واقعے نے پوری قوم میں بہت خوفناک تاثر قائم کیا، عوام بہت بری طرح قانون پر عملدآمد نہ ہونے سے متاثر ہو رہے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ قانون کی عملداری یقینی بنائے جائے، اس معاملے کوٹھیک کرنے کیلئے یہ معاملہ ریورس کرنا پڑے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اب تو جوڈیشل ریمانڈ ہو چکا ہے، تو عدالت کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب جو سب کچھ غلط ہوا اس کو ہم ٹھیک کہہ دیں؟

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کا کہنا تھا کہ شیشے توڑ کر غلط کام کیا تھا، عمران خان کی درخواست ضمانت ابھی دائر ہی نہیں ہوئی تھی، نیب جو کررہا ہے سابق وزیراعظم کی گرفتاری معمول بن چکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف تک رسائی کے حق پر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، موجودہ حکومت سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ بھی یہ کرے گی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے رینجرز تعینات کرنے کی درخواست کی تھی، نیب نے 8 مئی کو درخواست کی تھی، نیب کی رینجرز تعینات کرنے کی درخواست وارنٹس پر عملدآمد کیلئے نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملزم عدالت میں سرینڈرکردےتواحاطہ عدالت گرفتاریوں کیلئےآسان مقام بن جائے گا، ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاری کی سہولت کار بن جائیں گے، عدالتیں تو آزاد ہوتی ہیں، آزاد عدلیہ کا مطلب ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہے، ہم آج ہی حکم جاری کریں گے ، عدالت سےگرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

Comments

- Advertisement -