تازہ ترین

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول

کراچی: اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1...

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

جکبست لکھنوی: اردو شاعری کی تاریخ کا اہم نام

1926ء میں آج ہی کے دن اردو کے مشہور شاعر پنڈت برج نرائن چکبست لکھنوی وفات پاگئے تھے۔ ان کے متعدد اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

چکبست لکھنوی کا تعلق فیض آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1882ء میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر میں لکھنؤ آگئے جہاں قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔ چکبست نے ستارۂ صبح کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔

وہ شاعری ہی نہیں‌ نثر پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ چکبست نے اپنے زمانے کے کسی استاد سے اصلاح نہیں‌ لی اور کثرتِ مطالعہ کے ساتھ مشق جاری رکھی اور اردو ادب میں‌ نام بنایا۔ انھوں نے غزل گوئی کے علاوہ نظم میں‌ بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا۔ ان کا مجموعۂ کلام صبح وطن کے نام سے شائع ہوا۔

کہتے ہیں چکبست نے پہلا شعر نو، دس برس کی عمر میں کہا تھا۔ وہ ترقی پسند فکر اور آزاد خیال شخص تھے جس نے انگریزی ادب اور فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اور اس مطالعہ کے ان کے ذہن اور فکر پر اثرات مرتب ہوئے تھے۔ ان کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ انھوں نے صرف 35 سال کی عمر میں اردو شعراء کے درمیان صف اوّل میں جگہ حاصل کرلی تھی۔ چکبست صرف 44 سال زندہ رہ سکے۔ وہ ایک مقدمے کے سلسلے میں لکھنؤ سے بریلی گئے تھے اور واپسی پر ریل کے سفر میں ہی ان پر فالج کا حملہ ہوا۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ اور وطن کی فکر میں گھلے جاتے تھے، چکبست کا مشاہدہ بے پناہ تھا، انھوں نے غلامی کے دور دیکھے اور ظلم و ستم جو انگریزوں نے روا رکھا، ان پر چکبست کی دقیق نظر تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں قومیت و وطنیت کا عنصر غالب ہے۔

چکبست کا ایک مشہور شعر ہے۔

زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشاں ہونا

یہاں‌ ہم اردو کے اس مشہور شاعر کی ایک غزل آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

نہ کوئی دوست، دشمن ہو شریکِ درد و غم میرا
سلامت میری گردن پر رہے، بارِ الم میرا

لکھا یہ داورِ محشر نے میری فردِ عصیاں پر
یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا

کہا غنچہ نے ہنس کر واہ کیا نیرنگِ عالم ہے
وجودِ گل جسے سمجھے ہیں سب ہے وہ عدم میرا

دلِ احباب میں گھر ہے، شگفتہ رہتی ہے خاطر
یہی جنّت ہے میری اور یہی باغِ ارم میرا

کھڑی تھیں راستہ روکے ہوئے لاکھوں تمنائیں
شہیدِ یاس ہوں، نکلا ہے کس مشکل سے دم میرا

خدا نے علم بخشا ہے، ادب احباب کرتے ہیں
یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا

Comments

- Advertisement -