تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

سرور بارہ بنکوی: جنھیں مشرقی پاکستان کے فن کار اپنا استاد مانتے تھے

تقسیمِ ہند کے بعد سرور بارہ بنکوی نے بالخصوص مشرقی پاکستان کی فلمی صنعت میں اپنی نغمہ نگاری کی بدولت خوب شہرت حاصل کی۔ ان کا شمار فلم انڈسٹری کے نام ور نغمہ نگاروں میں‌ ہوتا تھا۔ وہ ایک خوب رُو اور انتہائی شائستہ انسان تھے اور ادبی حلقوں میں‌ انھیں ایک عمدہ غزل گو شاعر کے طور بھی پہچانا جاتا تھا۔

سعیدُ الرّحمٰن ان کا اصل نام اور تخلّص سُرور تھا جب کہ آبائی علاقے بارہ بنکی کی نسبت وہ سُرور بارہ بنکوی مشہور ہوئے۔ فلمی دنیا میں لازوال گیتوں کے اس خالق نے فلمی مکالمے بھی لکھے اور تین فلموں کی ہدایت کاری بھی کی جو ناکام ثابت ہوئیں۔ سرور کی وجہِ شہرت ان کی شاعری ہے۔ کئی مقبول گیتوں کے علاوہ سرور کو ایک عمدہ غزل گو شاعر کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔

سابق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی پہلی اردو فلم تو جاگو ہوا سویرا (1959) تھی لیکن پہلی کمرشل کے طور پر اردو زبان میں‌ بننے والی فلم چندا کا نام لیا جاتا ہے جو 1962 میں‌ ریلیز ہوئی تھی۔ ہدایت کار احتشام، شبنم، رحمان اور روبن گھوش کی بھی یہ پہلی اردو فلم تھی۔ سرور بارہ بنکوی نے اپنی اس پہلی فلم کے جملہ گیتوں کے علاوہ مکالمے بھی لکھے تھے۔ مشرقی پاکستان کی فلمی صنعت کا تذکرہ ہو اور سرور بارہ بنکوی کا نام نہ آئے یہ ممکن نہیں۔ سرور صاحب ڈھاکہ میں بے حد مقبول تھے۔ بنگلہ دیش کی فلمی صنعت کے لوگ سرور بارہ بنکوی کے احسان مند بھی تھے اور ان سے بہت محبت بھی کرتے تھے۔ اس زمانے میں وہاں اردو فلموں کے لیے سرور صاحب نے بہت کام کیا۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھی سرور بارہ بنکوی ڈھاکہ جاتے تو ان کے ساتھ بہت گرم جوشی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں فن کاروں کو سرور بارہ بنکوی نے اردو بولنا اور لکھنا سکھایا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ دل سے ان کی عزّت کرتے تھے۔

اردو کے اس ممتاز شاعر اور ہدایت کار کی مغربی پاکستان میں بطور نغمہ نگار پہلی فلم انجمن (1970) تھی۔ اس کے دو برس بعد فلم احساس میں رونا لیلیٰ کی آواز میں‌ ان کا گیت "ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے۔” نے سرحد پار بھی مقبولیت حاصل کی، اسی طرح‌ 1977 میں‌ فلم آئینہ میں مہدی حسن کی آواز میں مشہور گیت "کبھی میں سوچتا ہوں، کچھ نہ کچھ کہوں” نے بھی دھوم مچائی اور فلم نہیں ابھی نہیں جو کہ 1980 میں ریلیز ہوئی ایک گیت "سماں، وہ خواب سا سماں” بھی بہت مقبول ہوا جسے اخلاق احمد نے گایا تھا، یہ بھی سرور بارہ بنکوی کا تحریر کردہ تھا۔

اس معروف فلمی نغمہ نگار نے تین فلمیں آخری سٹیشن (1965)، تم میرے ہو (1968) اور آشنا (1970) کے نام سے بنائی تھیں‌ لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم کام یاب نہیں ہوئی تھی۔

سرور بارہ بنکوی کی بطور نغمہ نگار دو درجن کے قریب فلمیں ہیں جن میں ملن 1964 کی وہ فلم تھی جس کا سپر ہٹ گیت تھا: تم سلامت رہو، مسکراؤ ہنسو، میں تمہارے لیے گیت گاتا رہوں۔ یہ دل کش گیت بشیر احمد نے گایا تھا۔

سرور بارہ بنکوی کی غزل کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

بھارت کے صوبہ اترپردیش کے گاؤں بارہ بنکی میں 1919 کو پیدا ہونے والے اس شاعر کی زندگی کا بیشتر حصّہ ڈھاکہ میں گزرا اور وہیں 3 اپریل 1980 کو ان کا انتقال ہوا۔ سرور بارہ بنکوی وہاں ایک فلم بنانے کے سلسلے میں‌ گئے ہوئے تھے جہاں انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ جاں بَر نہ ہوسکے۔ ان کا جسدِ خاکی کراچی لایا گیا اور سوسائٹی کے قبرستان میں‌ تدفین کی گئی۔ سرور صاحب ایک خوش لباس اور خوش گفتار شخص مشہور تھے۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ اپنی تینوں‌ فلموں پر خاصا سرمایہ لگا چکے تھے، لیکن وہ فلاپ ہوگئیں‌ اور سرور بارہ بنکوی کو مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ وہ سخت دباؤ میں تھے اور انہی دنوں پڑنے والا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔

قیامِ پاکستان کے بعد سرور نے پہلے کراچی میں قیام کیا اور پھر ڈھاکا چلے گئے تھے۔ وہاں ان کے فلمی سفر کا آغاز فلم تنہا کے لیے مکالمہ نویسی سے ہوا اور پھر وہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے نغمہ نگاری کرنے لگے اور کام یاب رہے۔ ان کے گیت آ ج بھی سننے والوں پہ سحر طاری کر دیتے ہیں جس میں ’’تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے‘‘،’’ ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے‘‘، اور ’’ کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں‘‘ جیسے فلمی گیت شامل ہیں۔

سروربارہ بنکوی کے دو شعری مجموعے سنگِ آفتاب اور سوزِ گیتی کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔

Comments

- Advertisement -