تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

سیّاح‌ اور بہلول دانا

ایک سیّاح کے بارے میں‌ مشہور تھا کہ اس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے۔ ملکوں ملکوں سفر کے دوران وہ وہاں‌ کے ذہین اور قابل لوگوں‌ کی صحبت میں رہا ہے اور بڑا فیض اٹھایا ہے اور اب جس ملک میں‌ رہ رہا ہے، وہاں بھی بڑے بڑے عالم اس کا سامنا کرنے اور اس سے کسی موضوع پر گفتگو کرنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ وہ اس جیسا علم نہیں‌ رکھتے۔ اس سیاح کی شہرت اس ملک کے بادشاہ کے کانوں تک بھی پہنچی جہاں‌ وہ ان دنوں قیام پذیر تھا۔ بادشاہ نے سوچا کیوں نہ وہ اپنے درباریوں کی ذہانت کا امتحان لے۔ اس نے خاموشی سے سیّاح کو اپنے دربار میں‌ طلب کیا۔ اس کا علم وزیروں مشیروں کو نہ تھا۔

بادشاہ نے سیّاح کو دربار میں‌ پایا تو سب سے اس کا تعارف کروایا اور وزیروں اور مشیروں کی ذہانت کا امتحان لینے کی غرض سے کہا کہ وہ دربار کے امراء اور معززین سے کچھ سوالات کرے، لیکن کوئی بھی سیّاح کو درست جواب نہ دے سکا۔ بادشاہ اپنے وزیروں اور مشیروں کی نالائقی پر بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے سیّاح کو رخصت کرنے کے بعد درباریوں‌ پر غصّہ کرتے ہوئے کہا کہ تم سب لوگ میرے لیے باعثِ ننگ و عبث ہو۔ آج اس سیّاح نے تم سب کو عاجز کر دیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم اس کے مقابلے میں کسی مدرسے کے کوئی بچّے ہو۔ کیا تم یا کوئی بھی ایسا عالم فاضل اس ملک میں‌ نہیں‌ ہے جو اس شخص کے علم کا جواب دے سکے۔ درباریوں نے شرم سے اپنے سر جھکا لیے۔ کسی کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ اس دوران بادشاہ کا غصّہ مزید شدت اختیار کر گیا۔ اس نے حکم دیا ” کل اس سیاح کو دوبارہ دربار میں حاضر کیا جائے گا اور اگر کل
تم لوگوں نے اس کے سوالوں کے جواب نہ دیے تو میں تم سب لوگوں کی دولت اس سیّاح کو دے دوں گا۔ اس سے قبل دربار میں‌ حضرت بہلول دانا بھی ہوا کرتے تھے۔ مگر درباریوں نے انھیں‌ سازشیں‌ کرکے وہاں سے نکلوا دیا تھا۔

بادشاہ کی بات سن کر درباریوں میں تو کھلبلی مچ گئی۔ ان کی پریشانی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ سب ایک جگہ جمع ہو کر سوچنے لگے کہ بادشاہ کے غصے سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ آخر ایک شخص خوشی سے بولا۔ دوستو اس مشکل کو حل کرنے کے لیے ہمارے پاس بہلول دانا موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ہماری خطائیں‌ بھول کر اور تمام رنجشیں ختم کرکے عزّت کی خاطر اس سیّاح کا سامنا کرے گا اور اسے لاجواب کر دے گا۔

یہ سن کر باقی سب لوگوں کی جان میں جان آئی۔ سب لوگ مل کر بہلول کے پاس پہنچے اور اس سے معافی چاہتے ہوئے سارا ماجرا سنا دیا۔ بہلول دانا نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ میں کل دربار میں ضرور آؤں گا۔ اگلے روز دربار آراستہ ہوا۔ وزیر مشیر سب کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ بادشاہ بھی اپنے تخت پر بیٹھ چکا تھا۔ سیاح کو بھی ایک کرسی پیش کر دی گئی۔ بادشاہ نے اہلِ دربار پر نظر ڈالی اور پوچھا۔ کون ہے جو اس سیّاح کے سوالوں کے جواب دے گا؟

اہل دربار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے سوال کیا کہ بہلول کا نام آخر کسی طرح لیں، کہیں اس کا نام بادشاہ کو غصہ نہ دلا دے۔ اس وقت بہلول کی آواز گونجی، یہ دیوانہ حاضر ہے۔ میں اس سیاح کے سوالوں کا جواب دوں گا۔ بادشاہ نے اجازت دے دی۔ سیاح نے بہلول کی طرف بڑی حیرت سے دیکھا اور پھر بولا، کیا میں آپ سے سوال کروں؟

جی ہاں۔ کیوں نہیں۔ بہلول نے جواب دیا۔ سیاح اٹھا اورا پنی چھڑی سے زمین پر ایک دائرہ کھینچ دیا۔ بہلول نے فوراً ہی اٹھ کر اپنے عصا سے اس دائرے کے درمیان ایک لکیر کھینچ کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ سیاح کے چہرے
مسکراہٹ آئی اور اس نے ایک اور دائرہ کھینچ دیا۔ بہلول نے اس مرتبہ دائرے کو چار حصوں میں بانٹ دیا اور ایک حصے پر اپنی چھڑی رکھ کر کھٹکھٹائی۔ سیاح نے قدرے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اور زمین پر اپنا ہاتھ الٹی حالت میں رکھ
کر انگلیاں آسمان کی طرف اٹھا دیں۔ بہلول نے اٹھ کر اپنا ہاتھ زمین پر اس طرح رکھا کہ اس کے ہاتھ کی پشت اوپر یعنی آسمان کی طرف تھی، سیاح اپنی نشست پر واپس آ بیٹھا اور توصیفی لہجے میں بولا۔

مرحبا مرحبا۔ عالی جاہ! آپ کو بہت مبارک ہو آپ کے یہاں ایک ایسا دانش مند اور عالم موجود ہے جس پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے شخص کی قدر کرنی چاہیے۔“ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا، ” کیا بہلول نے تمہارے سوالات کے جوابات ٹھیک ٹھیک دے دیے ؟

سیاح بولا، جی جناب۔ اس نے کسی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی ہے جو اس کے پاس اتنا علم ہے کہ میرے اشاروں کو سمجھ کر ان کا ٹھیک جواب دیا۔ اب وہ سیاح جانا ہی چاہتا تھا کہ بادشاہ نے اس سے کہا۔ اگر تم ان اشاروں کو ذرا کھول کر بیان کر دو تو دربار میں موجود اہل علم بھی محظوظ ہوسکیں گے اور ان کے علم میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

کیوں نہیں بادشاہ سلامت۔ سیاح نے کہا اور چند لمحے رک کر بولا کہ آپ نے
دیکھا میں نے زمین پر ایک دائرہ کھینچا تھا، اس دائرے سے میرا مقصد زمین کا کرہ دکھانا تھا۔ آپ کے عالم فوراً سمجھ گئے اور اس نے دائرے کے دو برابر حصے کر کے مجھ پر ظاہر کر دیا کہ میں زمین گول ہونے پر یقین رکھتا ہوں اور اس کے اسرار و رموز سے بھی واقف ہوں۔ پھر اس نے ایک سیدھی لکیر کھینچی جس نے زمین کو شمالی اور جنوبی کرّے میں بانٹ دیا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ ایک اور دائرہ کھینچا، آپ کے عالم نے اس کے چار حصے کر کے مجھے سمجھا دیا کہ تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی ہے اور جب میں نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے زمین پر اُگنے والی نباتات کی طرف اشارہ کیا یعنی جب اپنے ہاتھ کو نیچے رکھا اور انگلیاں اوپر کیں تو اس کا مقصد کہ نباتات اور پودوں کی طرف اشارہ کرنا تھا تو اس کے بعد بہلول نے اپنے ہاتھ کو نیچے رکھا اور پشت آسمان کی جانب تو بارش اور سورج کی نشان دہی کی اور مطلب تھا کہ یہ دونوں نباتات اور پودوں کی بڑھوتری میں اور ان کی بالیدگی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ کہہ کر اس سیاح نے بہلول دانا کی طرف دیکھا اور عقیدت سے بولا میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ آپ کو ایسے دانش مند پر فخر کرنا چاہیے۔

یہ کہہ کر سیّاح نے دربار سے رخصت ہونا چاہا تو بادشاہ نے اسے رکنے کو کہا اور بہت سا انعام دے کر جانے کی اجازت دے دی۔ اس کے رخصت ہونے کے بعد بادشاہ نے اپنے درباریوں‌ سے کہا کہ علم کہیں سے بھی ملے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اپنے درمیان موجود عقل مند اور ذہین لوگوں کو عزّت دو۔ آج اسی بہلول نے تمھاری عزّت اور مال بچایا ہے جس کے خلاف تم لوگوں‌ نے محاذ بنا رکھا تھا۔ تمام درباری اس پر شرمندہ ہوئے اور بہلول کی تعریف کرکے بادشاہ کو راضی کرلیا۔

جب بہلول دربار سے رخصت ہورہا تھا تو امراء اسے باہر چھوڑنے آئے اور عمدہ نسل کے گھوڑے پر سوار کروا کے محافظوں کی معیت میں روانہ کیا۔

Comments

- Advertisement -