تازہ ترین

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

ویڈیو: سیاح آتش فشاں کا نظارہ کرنے کے لیے کہاں کا رخ کر رہے ہیں؟

بڈاپسٹ: سیاح جہاں دنیا کے بھر کے خوب صورت شہروں کا رخ کرتے ہیں وہاں وہ ایسے مقامات کی طرف بھی روانہ ہوتے ہیں جہاں کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹنے والا ہو، کیوں کہ یہ کسی بھی سیاح کی زندگی کا انوکھا واقعہ ہو سکتا ہے۔

یورپی ملک آئس لینڈ ایسے ہی شان دار مقامات کا مرکز ہے جہاں سیاح آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کا نظارہ دیکھنے کی تمنا میں چلے آتے ہیں اور اس ملک میں سال بھر ’آتش فشاں کی سیاحت‘ کی گرماگرمی طاری رہتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئس لینڈ میں پچھلے ہفتے پھٹنے والے آتش فشاں سے لاوے کا آگ اگلتا دریا جیسے ہی کم ہوا، تو سیاحوں کی خوشی ماند پڑ گئی، روئٹرز کے مطابق لندن کی 49 سالہ خاتون ڈینٹل پریکٹس منیجر ہیزل لین نے جیسے ہی ٹی وی پر آتش فشاں پھٹنے کی فوٹیج دیکھی، انھوں نے فوراً ریکجاوک کے لیے ٹکٹ بک کروایا، تاکہ وہ پگھلے ہوئے سرخ آسمان کے نیچے شان دار لاوے کے دریا کا قریب سے مشاہدہ کر سکے۔

ہیزل لین کا کہنا تھا کہ یہ خیال کتنا پاگل پن پر مبنی تھا کہ ریکجاوک جا کر آتش فشاں پھٹنے کا نظارہ کیا جائے، لیکن وہ اپنے بیٹے اور اس کی دوست کے ساتھ 22 دسمبر کو وہاں پہنچ گئیں لیکن افسوس کہ ریکجاوک سے تقریباً 40 کلومیٹر دور واقع آتش فشاں 18 دسمبر ہی کو پھٹ چکا تھا، اور اس سے لاوے کا بہاؤ بھی خاصا کم ہو چکا تھا۔

واضح رہے کہ 4 لاکھ سے کم آبادی والے اس چھوٹے سے ملک آئس لینڈ میں 30 سے زیادہ فعال آتش فشاں ہیں، اس لیے سال میں کئی مرتبہ شوقین سیاحوں کے لیے مواقع دستیاب ہو سکتے ہیں، اور اسی لیے یہ یورپی جزیرہ آتش فشاں سیاحت کی اہم منزل ہے۔ آئس لینڈ کے علاوہ ہر سال ہزاروں سیاح میکسیکو اور گوئٹے مالا سے سسلی، انڈونیشیا اور نیوزی لینڈ کی آتش فشاں سائٹس کا رخ کرتے ہیں۔

جنوب مغربی آئس لینڈ میں 2021 میں ایک آتش فشاں پھٹنے کے ساتھ ہی مقامی ٹور ایجنسیوں کی سرگرمیاں پھر سے عروج پر پہنچ گئی تھیں، اور ہزاروں سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا۔ مقامی ٹور ایجنسیاں آتش فشاں کے ساتھ ساتھ آئس لینڈ کے برفانی غاروں، گلیشیئرز اور جیو تھرمل پولز کے بھی دورے کرواتی ہیں، ان ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ گرنڈاویک میں آتش فشاں کے ساتھ سیاحوں کی ماند پڑتی دل چسپی پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔

آئس لینڈ کے سابق صدر اولفور راگنار گرامسن نے 23 دسمبر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں کہا کہ پیش گوئی ہے کہ دو ہفتوں میں آتش فشانی کا عمل دوبارہ شروع ہو سکتا ہے، اس لیے اپنی فلائٹس ابھی سے بک کروالیں۔

اگرچہ آتش فشاں کا نظارہ کرنا ایک خطرناک عمل ہے، اس میں کئی سیاح ہلاک بھی ہو چکے ہیں، تاہم سنسنی خیزی کے متلاشی سیاحوں کے لیے مشکل چوٹی چڑھنے، آتش فشاں کے گڑھے کے پاس چہل قدمی اور ہوا میں گندھک کی بو محسوس کرنے سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ہو سکتی۔

ابھی گزشتہ برس جب ہوائی میں دنیا کا سب سے بڑا فعال آتش فشاں پہاڑ ماونا لوا 1984 کے بعد پہلی بار پھٹا، تو ہزاروں تماشائی اس کے آگ اگلتے لاوے کے دھاروں کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ تاہم اس میں جان بھی سکتی ہے، دسمبر کے آغاز میں انڈونیشیا کا ماراپی آتش فشاں پہاڑ پھٹا تو اس سے 22 کوہ پیما گڑھے کے قریب ہلاک ہوئے، انڈونیشیا میں بھی 100 سے زیادہ فعال آتش فشاں پہاڑ واقع ہیں۔ نیوزی لینڈ میں بھی وائٹ آئی لینڈ میں آتش فشاں پہاڑ پھٹنے سے 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔

کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو تمام تر حفاظت کے ساتھ آتش فشاں کے مقام کا ٹور کرواتی ہیں، جرمنی کی کمپنی والکینو ڈسکوری چلانے والے ماہر ارضیات اور آتش فشاں ماہر ٹام فائفر ہر سال تقریباً 150 افراد کو جاوا، سولاویسی، سسلی اور آئس لینڈ سمیت ایسے دیگر مقامات پر لے کر جاتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -