تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

ڈبلیو جی گریس:‌ کرکٹ کی دنیا کا پہلا ‘سپر اسٹار’

ڈبلیو جی گریس کو ‘بابائے کرکٹ’ اور اس کھیل کی دنیا میں پہلا سپر اسٹار بھی کہا جاتا ہے۔ ڈبلیو جی گریس ہی تھے جنھوں نے کرکٹ کو جدید اور زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لیے اختراعی کوششیں کیں اور اس کھیل کے لیے مختلف تکنیکیں متعارف کروائیں جو کارگر ثابت ہوئیں۔ اس کے باوجود عجیب بات یہ ہے کہ ناقدین ڈبلیو جی گریس کو ‘اسپورٹس مین اسپرٹ’ سے عاری کھلاڑی کہتے ہیں۔

ڈبلیو جی گریس کی شخصیت کے مختلف دل چسپ پہلوؤں کے علاوہ اُن کے کھیلنے کا انداز، کارکردگی اور کرکٹ کے لیے اُن کی کاوشیں کئی اعتبار سے قابلِ‌ ذکر ہیں۔ یہ اب سے ڈیڑھ صدی پہلے کی بات ہے جب نوجوان ڈبلیو جی گریس نے کرکٹ کی دنیا میں خود کو ایک باصلاحیت کھلاڑی اور قابل کرکٹر کے طور پر منوایا۔ اُن کے وضع کردہ قوانین آج بھی زیرِ بحث آتے ہیں اور باوثوق طور پر گریس کو کرکٹ کے بڑے کھلاڑیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

ڈبلیو جی گریس انگریز تھے اور شوقیہ کرکٹ کھیلتے تھے۔ کھیل کے میدان میں دراز قامتی اور گریس کی لمبی داڑھی بھی ان کی پہچان تھی۔ ڈبلیو جی گریس کرکٹ کے شیدائی خاندان کے فرد تھے۔ ان کے والدین کو کرکٹ کا گویا جنون تھا اور اس کنبے کا ہر فرد اس کھیل سے وابستہ رہا۔ ڈبلیو جی گریس کے علاوہ ان کے دو بھائیوں نے بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلی اور ان کی اگلی نسل میں بھی پانچ افراد نے فرسٹ کلاس کرکٹر کے طور پر جگہ بنائی۔ گریس کے ماموں، چچا اور اُن کی اولادیں بھی کرکٹ سے وابستہ رہیں۔

1848ء ولیم گلبرٹ گریس کا سنہ پیدائش ہے جنھیں خاندان میں صرف گلبرٹ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ 23 اکتوبر 1915ء میں اپنی وفات تک انھیں مداحوں نے مختلف القابات سے یاد کیا۔ ڈبلیو جی گریس پیشے کے اعتبار سے معالج تھے اور اسی مناسبت سے انھیں‌ ڈاکٹر بھی کہا جاتا تھا۔ طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اور کرکٹ کھیلنے کے دور میں بھی وہ مریضوں کا معائنہ کرتے تھے، لیکن اکثر وہ اپنے مطب سے غائب رہتے تھے جس کی وجہ کھیل تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ اکثر مریض اُن سے نالاں رہتے تھے۔

گریس نے اپنے تین بھائیوں کے ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں بیک وقت میچ کھیلا۔ یہ ٹیسٹ میچ میں‌ پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ یہ بات ہے سنہ 1880 کی۔ اوول میں ٹیسٹ میچ کے لیے میدان میں ڈبلیو جی گریس، ان کے بڑے بھائی ای ایم گریس اور چھوٹے بھائی فریڈ گریس ایک ساتھ اترے تھے۔ انگلینڈ کی سرزمین پر یہ پہلا ٹیسٹ میچ بھی تھا۔

ڈبلیو جی گریس کی والدہ کا نام مارتھا تھا اور ان کا ذکر بھی برطانیہ میں کرکٹ کی تاریخ پر مبنی کتابوں میں موجود ہے۔ وہ ایک ایسی خاتون تھیں‌ جو کرکٹ کے کھیل کی مکمل معلومات رکھتی تھیں اور اسے خوب سمجھتی ہیں۔ مارتھا کا تحریر کردہ ایک خط بھی تاریخی شہرت رکھتا ہے جو اس زمانے میں انگلینڈ کے کرکٹر ولیئم کلارک کو ارسال کیا گیا تھا۔ کلارک نے آل انگلینڈ الیون کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے کپتان بھی تھے۔ مارتھا گریس نے اس خط میں اپنے بیٹے ڈبلیو جی گریس کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ اگرچہ اس وقت صرف بارہ سال کے ہیں لیکن انھیں یقین ہے کہ وقت آنے پر وہ اپنے بڑے بھائی سے بھی اچھے کھلاڑی ثابت ہوں گے کیونکہ وہ سیدھے بلّے سے کھیلتے ہیں اور ان کے اسٹروکس بہت عمدہ ہوتے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈبلیو جی گریس کی والدہ بطور کرکٹر اپنے بیٹے پر کتنا بھروسہ کرتی تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ گریس انگلینڈ کی نمائندگی کریں۔

ڈبلیو جی گریس پروفیشنل کرکٹر نہیں تھے لیکن برطانیہ کی جانب سے کرکٹ میچوں میں ان کی پرفارمنس یادگار رہی اور کرکٹ کے لیے اپنی کاوشوں کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں پہچانے گئے۔ کرکٹ کی دنیا میں ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس سے متعلق کئی واقعات بھی مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ آؤٹ ہونا پسند نہیں‌ کرتے تھے، اور امپائر فیصلے پر جرح کے لیے بھی تیّار رہتے تھے۔

ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس کا کریئر سنہ 1865 سے 1908 پر محیط ہے۔ انھوں نے کئی میچ کھیلے اور شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انھیں ایک آل راؤنڈر مانا جاتا ہے۔ ڈبلیو جی گریس نے انگلینڈ کی ٹیم کی قیادت کرنے کے علاوہ مقامی سطح پر بھی ٹیموں کی کپتانی کی۔ ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے کھلاڑی ہیں جنھوں نے بیٹنگ کو ایک انداز دیا۔ وہ پہلے بیٹسمین تھے جنھوں نے بیک فٹ اور فرنٹ فٹ دونوں پر یکساں مہارت کے ساتھ کھیل پیش کیا۔ ماہرین کے مطابق آن اور آف دونوں اطراف اعتماد سے کھیلنے کا پہلا عملی مظاہرہ بھی ڈبلیو جی گریس کی طرف سے دیکھنے میں آیا۔

ڈبلیو جی گریس کرکٹ میں انقلاب لائے۔ انھوں نے جدید بیٹنگ کی کئی تکنیکوں پر کام کیا اور اس زمانے میں بیٹنگ کے حوالے سے جو تبدیلیاں کی گئیں وہ ڈبلیو جی گریس کی سوچ کا نتیجہ تھیں۔

اس برطانوی کھلاڑی کی شخصیت کے کچھ دل چسپ پہلو بھی سامنے آئے اور وہ چند تنازعات کے لیے مشہور ہیں‌ جن کی بنیاد پر ناقدین کہتے ہیں کہ ان میں اسپورٹس مین اسپرٹ کا فقدان تھا۔ اس ضمن میں‌ ایک متنازع رن آؤٹ کی مثال دی جاتی ہے۔ یہیں سے ایشیز کی بھی ابتدا ہوئی تھی اور یہ کہانی بھی خاصی دل چسپ اور تاریخی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ سنہ 1882 کے اوول ٹیسٹ میں ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس نے آسٹریلوی بیٹسمین سیمی جونز کو اس وقت رن آؤٹ کر دیا جب کھلاڑی یہ سمجھ رہا تھا کہ گیند ڈیڈ ہوچکی ہے اور وہ کریز سے باہر تھا۔ اس پر کھیل کے میدان میں اختلاف اور بحث نے جنم لیا اور حریف ٹیم کے کھلاڑیوں میں غم و غصّہ پایا گیا۔

آسٹریلوی ٹیم نے اسے ڈبلیو جی گریس کی دھوکہ دہی سے تعبیر کیا اور کہا کہ بیٹسمین کو غلط آؤٹ کیا ہے۔ امپائر اور تماشائیوں کو بعد میں معلوم ہوا کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کا غصّہ کتنا شدید تھا۔ اس متنازع رن آؤٹ کے بعد برطانوی کھلاڑیوں نے فریڈ اسپورفرتھ کی بولنگ کا سامنا کیا۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک جارح اور جوشیلے بولر کا سامنا کررہے ہیں جس کا یہ انداز انھیں شکست سے دوچار کر دے گا۔ اس میچ میں فریڈ اسپورفرتھ کی بولنگ نے آسٹریلیا کو سات رنز کی ڈرامائی جیت سے ہمکنار کر دیا۔ اس شکست نے انگلینڈ میں‌ تہلکہ مچا دیا۔

روایتی حریف کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر پہلی شکست کو اخبار کی شہ سرخیوں میں جگہ ملی۔ سپورٹنگ ٹائمز نے طنزیہ پیرائے میں لکھا کہ انگلش کرکٹ کی اوول میں موت واقع ہو گئی ہے، اسے جلایا جائے گا اور اس کی راکھ آسٹریلیا بھیجی جائے گی۔ یہ بیانیہ ایشیز سیریز کی بنیاد بنا اور انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ کی تاریخ کی سب سے پرانی سیریز کا آغاز ہوا۔

ایشیز دراصل پانچ انچ کی ایک گلدان نما ٹرافی ہے جس میں کرکٹ کی گیند یا وکٹوں پر رکھی جانے والی ’بیلز‘ کی راکھ ہوتی ہے۔ آسٹریلیا سے اوول میں انگلینڈ کی شکست کے بعد اخبار نے لکھا تھا کہ اس شکست کے جنازے کی راکھ کو اب آسٹریلیا لے جایا جائے گا۔ اور واقعی جب انگلینڈ نے 83-1882 میں سڈنی میں 69 رن سے تیسرا ٹیسٹ جیتا تو ملبورن کی چند عورتوں نے انگلینڈ کی ٹیم کے کپتان کو ایک گل دان میں راکھ رکھ کر پیش کی۔ یوں یہ سیریز افسانوی حیثیت رکھتی ہے۔

ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس کرکٹر کے ساتھ ساتھ ایتھلیٹ بھی تھے۔ ایک کرکٹ میچ کے دوسرے دن انھیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ کرسٹل پیلس میں ہونے والے نیشنل گیمز میں حصہ لے سکیں۔ اس کرکٹر نے وہاں چار سو میٹرز ہرڈلز ریس جیتی۔ ڈبلیو جی گریس نے فٹبال اور گالف بھی کھیلی۔

Comments

- Advertisement -