تازہ ترین

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول

کراچی: اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1...

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

’گاندھی جی‘ کا مجسمہ اور ”ایلفی“

دارالخلافہ اسلام آباد ابھی پاکستان کے نقشہ پر نہیں ابھرا تھا اور کراچی ہی ’دارالخون خرابا‘ تھا۔

کراچی کا نقشہ ہی نہیں، تلفظ اور اِملا تک گنوارو سا تھا۔ زکام نہ ہو تب بھی لوگ کراچی کو ’کرانچی‘ ہی کہتے تھے۔

چیف کورٹ کے سامنے ’گاندھی جی‘ کا ایک نہایت بھونڈا مجسمہ نصب تھا، جس کی کوئی چیز گاندھی جی سے مشابہت نہیں رکھتی تھی۔ سوائے لنگوٹی کی سلوٹوں کے۔ گوانیر جوڑے وکٹوریہ گاڑی میں بندر روڈ پر ہوا خوری کے لیے نکلتے اور نورانی شکل کے پیرانِ پارسی شام کو ایلفنسٹن اسٹریٹ کی دکانوں کے تھڑوں پر ٹھیکی لیتے۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ پر کراچی والوں کو ابھی پیار نہیں آیا تھا اور وہ ”ایلفی“ نہیں کہلاتی تھی۔

سارے شہر میں ایک بھی نیو سائن نہ تھا۔ اس زمانے میں خراب مال بیچنے کے لیے اتنی اشتہار بازی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ نیپئر روڈ پر طوائفوں کے کوٹھے، ڈان اخبار کا دفتر اور اونٹ گاڑیوں کا اڈّا تھا۔ یہاں دن میں اونٹ گاڑیوں کا اوّل الذکر حصّہ کلیلیں کرتا اور رات کو تماش بین۔ اہلِ کمال اس زمانے میں بھی آشفتہ حال پھرتے تھے۔ کچھ ہماری طرح تھے کہ محض آشفتہ حال تھے۔ شریف گھرانوں میں جہیز میں سنگر مشین، ٹین کا ٹرنک اور بہشتی زیور دیا جاتا تھا۔

اردو غزل سے معشوق کو ہنوز شعر بدر نہیں کیا گیا تھا اور گیتوں اور کجریوں میں وہی ندیا، نِندیا اور نَندیا کا رونا تھا۔ میٹھانیوں اور اونچے گھرانوں کی بیگمات نے ابھی ساریاں خریدنے اور ہندوستانی فلمیں دیکھنے کے لیے بمبئی جانا نہیں چھوڑا تھا۔ ڈھاکا اور چٹاگانگ کے پٹ سن کے بڑے تاجر ”ویک اینڈ“ پر اپنی آرمینین داشتاؤں کی خیر خیریت لینے اور اپنی طبیعت اور امارت کا بار ہلکا کرنے کے لیے کلکتے کے ہوائی پھیرے لگاتے تھے۔

کیا زمانہ تھا، کلکتے جانے کے لیے پاسپورٹ ہی نہیں، بہانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ آم، کیلا اور شاعر ہندوستان سے اور لٹھا جاپان سے آتا تھا۔ بینکوں میں ابھی ایئرکنڈیشنر، میز پر فنانشل ٹائمز، ایرانی قالین، سیاہ مرسیڈیز کار، قلم چھوڑ ہڑتال، رشوت، آسٹن ریڈ کے سوٹ، مگرمچھ کی کھال کے بریف کیس اور اتنی ہی موٹی ذاتی کھال رکھنے کا رواج نہیں ہوا تھا۔ فقیر ابھی ہاتھ پھیلا پھیلا کر ایک پیسہ مانگتے اور مل جائے، تو سخی داتا کو کثرت اولاد کی ’بد دعا‘ دیتے تھے۔ اور یہ فقیر پُرتقصیر اپنی اوقات کو نہیں بھولا تھا۔ کنڈوں کی آنچ پر چکنی ہانڈی میں ڈوئی سے گھٹی ہوئی ارد کی بے دھلی دال چٹخارے لے لے کر کھاتا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا تھا۔

میں اپنے شہر (کراچی) کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گِلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ رہا ہے… اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بُتِ ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھہرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)

(از قلم: مشتاق احمد یوسفی)

Comments

- Advertisement -