پیر, جون 17, 2024
اشتہار

بیمار کی باتیں!

اشتہار

حیرت انگیز

’’تندرستی ہزار نعمت ہے۔‘‘ یہ کہاوت پہلے محض کہاوت تھی لیکن اس میں ایک مصرعے کا اضافہ کر کے سالکؔ نے اسے ایک مکمل شعر بنا دیا ہے۔

تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ
تندرستی ہزار نعمت ہے

گویا پرانے زمانے کے لوگوں میں یہ خیال عام تھا کہ

- Advertisement -

تنگدستی بھی ہو اگر سالکؔ
تندرستی ہزار نعمت ہے

لیکن سالک نے اپنے ذاتی تجربے اور دوسرے غریب مگر تنگ دست لوگوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرکے یہ فیصلہ دیا کہ ’’تندرستی تو ہزار نعمت ہے بشرطیکہ تندرست آدمی تنگدست نہ ہو۔‘‘

آدمی تندرست ہونے کے علاوہ تنگ دست بھی ہو تو وہ زیادہ عرصے تک تندرست نہیں رہ سکتا۔ تنگ دستی کے باعث وہ خالص گھی اور خالص دودھ نہیں خرید سکتا، ایسی قیمتی غذائیں نہیں کھا سکتا جن میں وٹامن اور غذائیت کے دیگر ضروری اجزا ہوں۔ تنگ دستی کے باعث روٹی کے بعد فروٹ نہیں کھا سکتا۔ جب فروٹ نہیں کھا سکتا تو خون بھی نہیں بنتا۔ جب خون نہیں بنتا تو تندرست کیسے رہ سکتا ہے۔

تندرست آدمی کو بھوک بہت لگتی ہے۔ ایک تندرست آدمی بیک وقت دو آدمیوں کی غذا کھا سکتاہے لیکن تنگ دستی کے باعث وہ ایک آدمی کی بھی پیٹ بھرغذا نہیں کھاسکتا تو دُبلا ہونے لگتا ہے۔ ہڈے موترے نکالنے لگتا ہے۔

تنگ دست آدمی کو چوبیس گھنٹے روپے اور روٹی کی فکر لگی رہتی ہے یا لگا رہتا ہے۔

فکر مذکر ہے یا مؤنث؟

فکر کو بعض لوگ مذکر کہتے ہیں اور بعض لوگ مؤنث۔ لیکن میری رائے میں اگر فکر زیادہ ہو تو ’’فکر‘‘ مذکر ہے یعنی آدمی کو فکر لگا رہتا ہے مگر اگر فکر کم ہے تو مؤنث ہے یعنی آدمی کو فکر لگی رہتی ہے۔

خیر بہرحال اگر آدمی کو پیٹ بھر روٹی بھی ملتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ فکر لگی ہوئی یا لگا ہوا ہے تو آدمی اسی طرح دبلا ہونے لگتا ہے جس طرح سائیکل کے ٹیوب یا فٹ بال کے بلیڈر میں بڑا ننّھا سا پنکچر ہوجائے اور آہستہ آہستہ ہوا نکلنے لگے۔

تندرست آدمی فکرمند اور تنگدست ہوجائے تو دیکھے ہی دیکھتے اس کا گوشت اندر اور ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں اور لوگ باگ مذاق اڑاتے ہیں۔

وہ دیکھو مچھّر پہلوان
وہ دیکھو پّدی پہلوان

میرا ذاتی تجربہ تو کہتا ہے کہ تندرستی نہ ورزش میں ہے نہ آب وہوا میں، تندرستی اگر ہے تو صرف پیسے میں ہے۔ صرف پیسہ ہو تو آدمی اب و ہوا خرید سکتا ہے یعنی کراچی کو چھوڑ کر راولپنڈی میں آباد ہوسکتا ہے، سوئٹزر لینڈ میں رہ سکتا ہے۔ بھینس خرید سکتا ہے، خالص دودھ پی سکتا ہے، خالص گھی کھا سکتا ہے، مرغی کا سوپ پی سکتا ہے۔ شوربا پی سکتا ہے۔ انڈے کھا سکتا ہے، ہارلکس اور اوولٹین پی سکتا ہے، جب چاہے وٹامن کی گولیاں پھانک سکتا ہے، روٹی کے بعد فروٹ کھا سکتا ہے۔ بیمار ہو تو فوراً علاج کروا کر فوراً تندرست ہو سکتا ہے، اِسی لئے تو سالکؔ نے کہا،

تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
تندرستی ہزار نعمت ہے

لیکن اس کے برعکس آدمی تنگ دست ہو اور وہ تندرست ہونے کے لئے خوب ڈنڈ پیلے اور بیٹھکیں نکالے تو اس کا جسم کچھ عرصے کے لئے بن جائے گا لیکن ڈنڈ بیٹھکوں کی وجہ سے اسے خوب کھل کر بھوک لگے گی اور کھانے میں اسے سُوکھی روٹی اور مسور کی دال ملے گی تو چند دنوں میں ڈنڈ پیلتے پیلتے یا بیٹھکیں نکالتے نکالتے یا تو بے ہوش ہوجائے گا یا پھر عفر لہا ہو جائے گا اور لوگ عربی میں بولیں گے؛

انا للہ وانا الیہ راجعون

تنگ دستی کے ساتھ ساتھ تندرستی کے اور بھی بڑے نقصانات ہیں۔ تندرست آدمی کو نیند بڑی گہری آتی ہے اور چور اس کی گہری نیند سے جائز ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کا گھر لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ چور تنگدست کے گھر اس لئے چوری کرتے ہیں کہ تنگدست کے گھر دولت مند آدمی کے گھر کی طرح پہرے پر نہ چوکیدار ہوتا ہے اور نہ کُتّا۔

تنگ دست تندرست جب کسی بس یا ٹرام یا ریل میں اپنی سیٹ پر آرام سے بیٹھتا ہے تو لوگ اسے ڈانٹتے ہیں۔

’’کمبخت ہٹا کٹا آدمی اس طرح آرام سے بیٹھا ہے اور بوڑھے، ضعیف، دُبلے، بیمار یوں کھڑے ہیں، اٹھ اپنی سیٹ سے۔‘‘

تنگ دست تندرست، تنگدستی کے باعث اچھے کپڑے نہیں پہن سکتا تو پولیس یہ سمجھتی ہے۔

’’تنگ دستی میں یہ آدمی اتنا موٹا تازہ کیسے ہے؟ یہ ضرور کوئی غنڈہ ہے۔‘‘

چنانچہ پولیس تنگ دست کو غنڈہ ایکٹ میں پکڑ لیتی ہے اور اگر شومئی قسمت سے بیچارے کی والدہ بیوہ ہو تو دنیا والے الگ انگلی اٹھاتے ہیں۔

’’وہ دیکھو۔ رانڈ کا بیٹا سانڈ۔‘‘

تنگ دست تندرست کا مالک اس کا جتنا کام لیتا ہے، اتنا دوسرے مریل ملازمین سے نہیں لیتا۔ وہ ہمیشہ تنگ دست تندرست سے یہی کہے گا۔

’’ماشاء اللہ اتنے ہٹّے کٹّے ہو، چلو تم ہی یہ کام کر دو، وہ دوسرا تو مریل ٹٹّو ہے۔‘‘

سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ تندرست تنگدست بڑا کثیرالعیال ہوتا ہے۔

غیرملکی باشندوں کو عام طور پر یہ شکایت ہے کہ پاکستان کے باشندے تندرست نہیں ہوتے۔

پاکستانی باشندے بھلا تندرست کیسے ہوسکتے ہیں؟

۱۔ راشن کارڈ پر روٹی کھاتے ہیں۔

۲۔ پانی ملا دودھ یا دودھ ملا پانی پیتے ہیں۔

۳۔ پنجاب کا خالص گھی کھانے کے بجائے خالص پنجاب کا گھی کھاتے ہیں یعنی پنجاب کا نام تو خالص ہوتا ہے مگر گھی خالص نہیں ہوتا۔

۴۔ کسی دعوت میں فروٹ کھائیں تو کھائیں لیکن اپنے پلّے سے کبھی فروٹ نہیں کھا سکتے۔

۵۔ وہ چاہے پیٹ بھر کر بھی کھانا کھالیں لیکن تفکّرات انہیں کھاتے رہتے ہیں۔

آدمی تندرست اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ وہ ’’دھن درست‘‘ ہو۔

’’دھن درست‘‘ ہو تو آدمی بھی تندرست‘‘ ورنہ پھر

تنگ دستی بھی ساتھ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے

(ممتاز ادیب، صحافی اور مشہور مزاح نگار ابراہیم جلیس کے قلم سے)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں