کابل: افغان خاتون کو سرِعام وحشیانہ طریقے سے قتل کرنے کے واقعے نے توہم پرستی کے خلاف عوام کے جذبات ابھر رہے ہیں اور کابل میں جگہ جگہ موجود ملاؤں سے نفرت کا اظہار انہیں روپوش ہونے پرمجبورکررہاہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جذبات سے بھرے مجمع نے 27 سالہ فرخندہ کو دن دہاڑے دریائے کابل کے کنارے تشدد کرکے قتل کیا اور اس کی نعش کو آگ لگادی تھی، خاتون پر ایک تعویز بیچنے والے ملا نے تنقید کرنے کے جواب میں ’توہینِ مقدسات‘کا الزام عائد کیا تھا ۔
فرخندہ کے قتل پرافغانستان اور دنیا کے کئی ممالک میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جس نے دنیا بھر کی توجہ افغانستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر مبذول کرادی۔ افغان خاتون کا جنازہ روایات کو توڑتے ہوئے خواتین نے اٹھایااور انہیں ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچایا۔
اس کے ساتھ ہی ’’فرخندہ کو انصاف دو‘‘ اور ’’جہالت مردہ باد ‘‘ کے نعروں کے تحت تحریک شروع ہوئی جس نے روحانی عاملین، تعویز بیچنے والے، جعلی ملا اور قسمت بدلنے کا دعویٰ کرنے والوں کے خلاف عوامی جذبات کو مہمیز کردیا۔
افغانستان کے نائب وزیر برائے مذہبی امور داعی الحق عابد کا کہنا ہے کہ ’’ہرعمامہ پہننے والا مذہبی عالم نہیں ہوتا‘‘۔
داعی الحق کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ فرخندہ جو خود اسلامک اسٹڈیزمیں گرایجویٹ تھیں انہوں نے قران کی توہین کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ توہمات کے خلاف ان کی تعلیمات سے تعویز بیچنے والے عالم کے گاہک خراب ہورہے تھے۔