تحریر: ایاز خان
انسانی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جن اقوام میں بھی قانون کی عمل داری قائم ہوئی ہے اس نے طرقی کی بلندیوں کو چھولیا، قانون کی عمل داری اگر خوش اسلوبی سے نافذ ہوجائے تو معاشرہ ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے اور اگر یہ عمل داری راستے میں رک جائے اور قانون کا تمام شہریوں پر یکساں اطلاق نہ ہو پائےگا، غریب کے لئے قانون موجود ہو اور با اثر افراد اور امراء کے لئے قانون لمبی تان کر سو رہا ہو تومعاشرہ ابتری کی عبرت ناک مثال بن جاتا ہے۔
اس کی زندہ مثال برطانوی وزیراعلیٰ ڈیوڈ کیمرون ہیں جن کو ڈاکٹر نے انتہائی نہگداشت کے کمرے میں داخل ہونے سے نہ صرف روکا بلکہ اس کے نقصانات پرلیکچر بھی دیا، ذکر برطانیہ کا ہو اور پاکستان کی سیاست کا ذکر نہ ہو ایسا نہیں ہو سکتا۔
حال ہی میں برطانیہ سے اپنی تعلیم مکمل کرکے آنے والے بلا ول بھٹو زرداری انداز بیان اور گفتار سے پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں اور اخباروں میں ان کی لاڑکانہ والی تقریر پر خوب کالم بھی لکھے گئے مگر کسی نے بلاول سے یہ سوال نہیں پوچھا کی میاں برطانیہ میں سڑک پر قبضہ کر نے کی کیا سزا ہے ؟ اور کو ئی پوچھے گا بھی نہیں کیوں کے بلاول تو بڑے صاحب کے بیٹے ہیں انکے نانا سابق وزیر اعظم ، والدہ دو مرتبہ سابق وزیر اعظم اور والد سابق صدر پاکستان اور مفاہمت کی پالیسی کے ایجاد کرنے والےہیں۔
کچھ عرصہ قبل سندھ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مشیر عالم نے کہا تھا کہ قانون کی بلاتفریق عمل داری سے ہی دہشت گردی اور جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے عدالتیں جن قوانین پر عمل درآمد کے احکامات جاری کرتی ہیں ان احکامات پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کیا جاتا، شہریوں کے جان و مال کی تحفظ کی ذمہ دار حکومت ہے، قانون کی بلاتفریق عمل داری نہ ہونے کے سبب معاشرے میں جرائم بڑھ رہا ہے۔
میں پریشان ہوا کے سندھ کی سب سے بڑی عدالت کے چیف نے ایسا کیوں کہا تحقیق کر نے پر سمجھ آیا کے شاید پڑھے لھے لوگوں سے مخاطب ہیں، معاملہ کچھ یوں تھا کہ صوبہ سندھ کی سب سے بڑی عدالت جسے لوگ سندھ ہائی کورٹ کے نام سے جانتے ہیں اس کے حکم کے باوجود سڑک پر قبضہ جاری ہے اور سونے پر سوہاگاہ کے پولیس والے اس دیوار کی حفاظت پر معمور ہیں سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود کےعوامی حقوق کے علمبرداروں کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
سنا تو تھا کے پاکستان میں سب چلتا ہے مگر ایسی جیتی جاگتی مثال شاید پہلے نہیں دیکھی ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما تو اپنی توپین لیکر میدان میں اتر آئیں ہیں مگر کا ش کوئی ان کو یہ سمجھا دے کہ سڑک عوام کے ٹیکس سے بنتی ہے بلاول سمیت کسی کے والد محترم کی ذاتی جائیداد نہیں ہوتی، مگر پیپلز پارٹی والے بہ ضد ہیں کہ ہم سے جو ٹکرائے گا وہ مٹی میں مل جائے گا۔ قصہ مختصر یہ کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی لندن میں بھی دفاتر اور رہنماوں کے گھر موجود ہیں، جو پارٹی سڑک پر قبضہ کرنے کی حامی ہے ۔ لندن میں کسی بھی سڑک پر صرف 5 منٹ کے لئے رکاوٹیں کھڑی کر کے دکھائے۔
بچپن میں جب ہم کرکٹ کھلنے جا تے اور وہاں کوئی اورٹیم پہلے سے کھیل رہی ہوتی تھی توان بچوں سے الفاظ کی جنگ ہوجایا کر تی تھی اور ایک ہی سوال پوچھا جاتا تھا کہ سڑک کیا تمھارے باپ کی ہے؟ بچےتو صرف سوال کیا کرتے تھے مگر پردیس سے آئے تعلیم یافتہ بلاول نے اس سوال کا جواب بہت ہی دیا ہے۔
شاید میں یہ سب لکھنے کے بعد جمہوریت کا دشمن بھی کہلاوں اور گستا خ بھی مگر کیا کروں سچ کہنے کی بری عادت ہے ، کسی کو برا لگے تو خاکسار کیے لئے دعا فر ما دے
بقولِ شاعر
جو دل پر گزرتی ہے رقم کر تے رہیں گے
ہم پرورش ِ لوح و قلم کر تے رہیں گے