بدھ, جنوری 15, 2025
اشتہار

قائد اعظم کا پاکستان ، غیرمسلم پریشان

اشتہار

حیرت انگیز

تحریر : وسیم نقوی

میرے ایک عزیز نے مجھے قصہ سنایا کہ جس کالج میں ہم پڑھتے تھے وہاں کے اساتذہ میں سے ایک استاد غیر مسلم بھی تھے، سب اساتذہ باہمی اتفاق سے کام کرتے تھے  جب ہمارے کالج کے پرنسپل ریٹائر ہوئے توان کی جگہ ہمارے غیر مسلم استاد کو سنیارٹی اور کارکردگی کی بنیاد پر پرنسپل بنا دیا گیا بس یہ حکم نامہ آنے کی دیر تھی کہ وہ تمام اساتذہ جو انہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، ساتھ کھاتے، پیتے تھے، وہ ایک دم بدل گئے اور اس حکم نامے کے خلاف احتجاج اور کلاسز کا بائیکاٹ شروع کر دیا کہ ہم کسی غیر مذہب استاد کے ماتحت کام نہیں کریں گے حالانکہ کبھی کسی استاد کو ان غیر مسلم استاد کے مذہب سے کوئی تکلیف ہوئی تھی نہ ہی کسی طالب علم نے ان کی کوئی شکایت کی تھی لیکن صرف مذہب کو استاد جیسے معتبر پیشے کے درمیان لا کر اس کی حرمت کو داغ دار کردیا گیا۔

 یہ تو صرف ایک واقعہ تھا ایسے لاکھوں واقعات ہیں جو آئے دن ہوتے رہتے ہیں اور ہم اپنے خلاف کی جانے والی بات کو مذہب کی نظر کر دیتے ہیں اس واقعے کا تعلق مذہب سے ہو یا نہ ہو  لیکن ہم مذہب و مسلک کو اپنے مطلب اور اپنے فائدے کیلئے استعمال کرکے انسانیت کو بھی اپنے پیروں میں روندتے چلے جا رہے ہیں۔

- Advertisement -

 سائنس دان، ڈاکٹر، انجینئرز، وکیل جتنی مرضی کتابیں پڑھ لیں، جتنے چاہے تجربات کرلیں، زندگی کے کتنے ہی سال ایجادات پر صرف کر دیں لیکن کسی بھی ملا کا ایک فتویٰ سائنس دان، ڈاکٹرز اور انجینئرز کی محنت پر پانی پھیر دیتا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ انکے مقلد بھی آنکھیں بند کر کے اس پر من و عن عمل کرنے لگ جاتے ہیں۔

میں یہاں ایک وضاحت کرناچاہتا ہوں کہ ملا اور عالم دین میں فرق ہوتا ہے ملا کی پہچان یہ  ہے کہ وہ آپ کو علم، سائنس اور جدید علوم سے دور کر کے آپس میں تفرقہ پیدا کرے گا جبکہ عالم دین آپ کو علم، سائنس اور جدید علوم سے محبت کی دعوت دے گا اور آپس میں محبت اورروا داری کا درس دے گا۔ فتح مکہ کے موقعے پر جب مسلمانوں نے کفار کو قیدی بنایا گیا تو رسول پاک نے کفار سے معاہدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کو تعلیم سے روشناس کریں تو ہم آپ کو رہا کردیں گے۔

 اسلام میں استاد کا رتبہ بہت عظیم ہے استاد کو روحانی باپ کا نام دیا گیا ہے اور وہ رسول پاک  کہ جن کا عمل ہی اسلام ہے تو کیا اُن کو نہیں  معلوم تھا کہ میں کفار کو مسلمانوں کا استاد بنانے جارہا ہوں اور استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے یقیناًنبی پاک کو اسکا علم تھا لیکن اس واقعے میں ہمارے لیے جو سبق  پنہاں ہے وہ یہ کہ تعلیم اور ترقی میں مسلک و مذہب کی قید نہیں ہوتی ۔علم جہاں سے ملے لے لو لیکن بدقسمتی سے آج مجھے ایسا محسوس ہے کہ ہم نے 14 اگست 1947 کو پاکستان نہیں بلکہ اپنا مذہب آزاد کرایا تھا کہ ہم اپنی مرضی کا اسلام نافذ کر سکیں جہاں ہمیں مکمل آزادی ہو کہ ہم جس کو چاہیں کافر قرار دے دیں اور جس کو چاہیں مومن کی ڈگری دے دیں، ایک دوسرے کی مساجد و امام بارگاہ کو جلا دیں حتیٰ کہ قبرستان کو بھی نہ چھوڑیں۔

 کرسمس کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کیا کہ ’’میں اپنی زندگی میں پاکستان میں کرسچن وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہوں۔

یہ بات سامنے آنے کی دیر تھی کہ ہر طرف سے ردعمل آنا شروع ہو گیا کہ یہ خلاف آئین بات کہہ دی یہ اقدام اسلام کے خلاف تصور کیا جائے گا  پاکستان اسلام نے نام پر بنا تھا تو اور کسی غیر مسلم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پاکستان کا وزیر اعظم یا صدر بنے۔ ہماری بدقسمتی کہہ لیں یا معصومیت کہ ہم مسلمان حکمرانوں کے ہاتھوں تمام ظلم ، بے انصافیاں تو برداشت کر نے کیلئے تیار ہیں مگر کسی غیر مسلم کو وزیراعظم یا صدر نہیں بننے دیں گے۔
 
ابھی چند دن پہلے پنجاب کے ایک گاؤں میں 15 سالہ غیر مسلم کی میت کو مذاق بنا دیا گیا ہوا کچھ یوں کہ اس گاؤں میں دونوں مذاہب مسلم اور غیر مسلم کے لوگ رہتے آ رہے ہیں اور دونوں مذاہب کے افراد نے کچھ زمین قبرستان کیلئے وقف ہوئی ہے کہ دونوں مذاہب کے مرحومین کو یہاں ایک ساتھ دفنایاجا سکے۔ چند دن پہلے جب 15 سالہ غیر مسلم بچی کی میت کو دفنانے کیلئے قبرستان لایا گیا تو وہاں چند افراد ڈنڈھے اٹھائے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم اس غیر مسلم کو اس قبرستان میں دفتانے نہیں دیں گے۔ اسے اب کہیں اور جا کر دفنا دیں۔ کافی دیر تک بحث و مباحثے کے بعد کسی ایک شخص نے اپنی زمین کا کچھ حصہ دے کر اس بچی کو دفنانے کیلئے دیا۔ یہ تو ایک قبرستان کی صورت حال ہے۔

 اس سے پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے کہ غیر مسلموں کے قبرستان میں قبروں کی توہین کی گئی تھی۔ کیا صرف پاکستان کی سرزمین پر صرف چند ملا سوچ کے حامل افراد کا ہی حق ہے اور غیر مسلموں کیلئے کوئی جگہ نہیں؟ ٹھیک ہے وہ کلمہ گو نہیں مگر کیا پاکستانی بھی نہیں؟ جب پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقاریر میں فرمایا تھا کہ پاکستان میں تمام مذاہب کے افرا د کو مکمل آزادی ہو گی ہر کوئی اپنی مذہبی رسومات مکمل آزادی کے ساتھ انجام دے سکتا ہے اگر پاکستان میں غیر مسلموں کیلئے واقعی کوئی جگہ نہیں تھی تو پھر کیا اس بات کا قائد اعظم کو پتہ نہیں تھا؟

 ہمارا قومی مسئلہ ہی یہ بن گیا ہے کہ ہم نے ریاست کو مذہب کا نام دے دیا ہے جہاں کوئی اور اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا جب تک ہم مذہب نہ ہو جائے جبکہ ریاست ایک ماں کی طرح ہوتی ہے اور ماں کا کام ہوتا ہے کہ تمام اولاد کو برابر سمجھے چاہے کوئی بیٹا کالا ہو یا گورا، چاہے ایک بچے کی سوچ دوسرے سے مختلف ہی کیوں نہ ہو مگر ماں کیلئے سب بچے برابر ہونے چاہئیں چاہے وہ کسی بھی اسکول میں پڑیں اور ان کے اساتذہ مختلف ہوں لیکن ماں کیلئے سب برابر ہوتے ہیں مگر ہم نے ریاست کو ماں تو سمجھا ہے مگر سوتیلی اور سگی ماں جیسی وہ اپنی تمام مذہبی رسومات مکمل آزادی سے مناتے ہیں۔

 لاکھوں مسلمان غیر مسلم ممالک میں مقیم ہیں جہاں ان کی زندگی محفوظ ہے  ہم سے کئی گنا اچھے مسلمان بھی ہیں کیونکہ ان کا ان تمام افراد کے نزدیک حکمران کا مذہب و مسلک کچھ بھی ہو، ان کو اس سے غرض نہیں ہے لیکن اگر ہم پاکستان میں غیر مسلم کے ساتھ ایسا سلوک کریں گے کہ ان سے پاکستانی ہونے کا حق بھی چھین لیں گے تو یاد رکھیں بھارت سمیت کئی غیر مسلم ریاستوں میں کروڑوں مسلمان بستے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے عمل ردعمل کسی اور ملک میں ظاہر ہو بعد میں ہمیں دھرنے اور ہڑتالوں کی ضرورت پیش آئے اور ہم مردہ باد مردہ باد کے نعرے لگا لگا کر اپنا گلا خراب کر بیٹھیں اس لئے ابھی بھی وقت ہے کہ ہم پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے افراد کو مسلکی، لسانی، مذہبی بنیاد پر نہ دیکھیں بلکہ ایک پاکستانی کو پاکستانی ہی رہنے دیں۔

 

Comments

اہم ترین

مزید خبریں