کونسل کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ایک عورت کا شوہر دوسری، تیسری یا چوتھی مرتبہ شادی کرے تو وہ طلاق کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ اسلام عورت کو اپنے شوہر سے علیحدگی کا حق دیتا ہے، لیکن دوسری شادی ایسا کرنے کے لیے معقول بنیاد نہیں ہوسکتی۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے مسلم طلاق ایکٹ 1939ء کے متعلقہ سیکشن پر بحث کی اور محسوس کیا کہ یہ شریعت کے خلاف ہے۔
مولانا محمد شیرانی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اس حصے کو ختم کردے۔
ایک خاتون مختلف حالات کے تحت طلاق حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے، اس ایکٹ کی شق (ایف) کے سیکشن 2 کا کہنا ہے کہ ’’اگر اس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں، وہ قرآن پاک کے احکام کے مطابق ان کے ساتھ مساویانہ سلوک نہیں کرتا۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ نے بعد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ ایک عورت علیحدگی کے لیے درخواست دے سکتی ہے، اگر اس کے ساتھ غیرمساویانہ یا ظلم پر مبنی سلوک کیا جارہا ہے۔
بچوں کی شادیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نکاح صرف اس صورت میں جائز ہے، کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ لڑکی کے والد یا اس کے دادا کی جانب سے کروایا گیا ہو نہ کہ ایک روایت کے طور پر، لیکن 18 برس کی عمر میں داخل ہونے سے پہلے اسلام میں رخصتی کی اجازت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایک شخص کو سات برس کی قید کی سزا ہوگئی ہے تو اس کو علیحدگی کے لیے معقول وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لیے کہ یہ سزا اس مدت کے پورے ہونے سے قبل معاف بھی ہوسکتی ہے۔
یاد رہے کہ اس سال 22 مئی کو اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ایک لڑکی اگر نوسال میں نوجوان ہوگئی ہے، اگر اس کے اندر بلوغت کی علامات نمایاں ہوگئی ہیں، تو وہ شادی کے قابل ہے۔
اس وقت مولانا شیرانی نے کہا تھا کہ قانون کے تحت شادی کی کم سے کم عمر کا جو تصور دیا گیا ہے، وہ 18 سال ہے، یہ اسلام کے مطابق نہیں ہے۔
مولانا شیرانی جو جمیعت علمائے اسلام فضل کے رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، نے اس اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ شادی کے قوانین میں ترمیم کرے، اس لیے کہ شریعت میں واضح طور پر ایک شخص کی چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے، اور اس کو سمجھنا اور اس کی پیروی کرنا آسان ہے۔‘‘