امریکی سائنس دانوں نے کئی عشروں کے تعطل کے بعد ایک نئی اینٹی بائیوٹک دریافت کی ہے۔
بیکٹیریا اگانے کے ایک منفرد طریقے سے 25 نئی اینٹی بائیوٹکس حاصل ہوئی ہیں، جن میں سے ایک کو بہت ’حوصلہ افزا‘ قرار دیا گیا ہے۔
اینٹی بائیوٹکس کی آخری نئی قسم آج سے تقریباً تین عشرے قبل متعارف کروائی گئی تھی۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق کو ’عہد ساز‘ قرار دیا گیا ہے، اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نئی دریافت محض ابتدا ہے جس کے بعد اس قسم کی مزید ادویات کی دریافت کا راستہ کھل جائے گا۔
1950 اور 60 کی دہائیاں اینٹی بائیوٹکس کی دریافت کے سنہرے عشرے کہلائے جاتے ہیں۔ لیکن 1987 کے بعد سے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں بیکٹیریا سے لڑنے کے لیے کوئی نیا ہتھیار نہیں آیا۔
اس کے بعد سے جراثیم نے بھی اپنے اندر غیرمعمولی قوتِ مدافعت پیدا کر لی ہے۔ خاص طور پر تپِ دق پیدا کرنے والے ایک خاص قسم کے جراثیم پیدا ہو گئے ہیں جن کے اندر متعدد جراثیم کش ادویات کے خلاف مدافعت موجود ہے۔
امریکی شہر بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی نے نئی اینٹی بائیوٹک کی دریافت کے لیے پرانے ماخذ کی طرف رجوع کیا، یعنی مٹی۔
مٹی میں جراثیم بہت بڑی تعداد میں جراثیم موجود ہوتے ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک فیصد کو تجربہ گاہ میں اگایا جا سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے بیکٹیریا کے لیے ایک خاص قسم کا ماحول تیار کیا جسے انھوں نے ’زیرِ زمین ہوٹل‘ کا نام دیا۔ اس ہوٹل کے ہر ’کمرے‘ میں ایک ایک بیکٹیریا ڈال دیا گیا اور اس آلے کو مٹی میں دفنا دیا گیا۔
اس وقت جو ’جدید ترین‘ اینٹی بائیوٹکس بھی استعمال کی جا رہی ہیں وہ کم از کم تین عشرے پرانی ہیں
اس طرح بیکٹیریا کو اپنی افزائش کے لیے مٹی کا مخصوص ماحول دستیاب ہو گیا اور ساتھ ہی ساتھ سائنس دانوں کو ان کا مشاہدہ کرنے کا موقع بھی مل گیا۔
اس کے بعد ان جراثیم سے ایک دوسرے کے خلاف جو کیمیائی مادے خارج ہوئے، ان کی جراثیم کش خصوصیات کا تجزیہ کیا گیا۔
اس طریقے سے سائنس دانوں کو 25 نئی اینٹی بائیوٹکس ہاتھ آئیں، جن میں سے ایک ’ٹیکسوبیکٹن‘ سب سے زیادہ حوصلہ افزا نکلی۔