آٹوگراف پلیز…. یہ وہ آواز تھی جو اب سے چند دہائی قبل ہر اس تقریب میں سنائی دیتی تھی جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی مشہور ہستیاں شریک ہوتی تھیں اور مداح اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ان سے آٹو گراف لینے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے، لیکن بدلتے وقت کے ساتھ شاید یہ سلسلہ ماند پڑچکا ہے، آٹو گراف کی روایت گو اب بھی زندہ ہے مگر اس کے لیے اب ہم وہ پُرجوش انداز اور وہ اشتیاق نہیں دیکھتے جو ماضی میں دیکھا۔
وہ لوگ جنہوں نے اس دور میں آنکھ کھولی جب سوشل میڈیا اور موبائل فون تو دور کیبل اور ٹیلیفون بھی ہر گھر میں نہیں ہوتا تھا وہ اس امید بھری خوش کن آواز ’’آٹو گراف پلیز‘‘ سے ضرور مانوس ہوں گے۔ ہمارا آٹوگراف بُک سے تعلق تو اپنے اسکول کے بالکل آخری سال میں جڑا جب ہم دسویں جماعت کے طالبعلموں کو نویں جماعت کے طلبہ نے الوداعی پارٹی دی۔ ان لمحات کو یادگار بنانے اور گزرے 10 سال کی یادوں کو سینے سے لگائے رکھنے کے لیے ہم نے آٹوگراف بُک کا سہارا لیا۔
اپنے اساتذہ سے اس آٹوگراف بُک پر ان کے آٹوگراف لیے تو دستخطوں کے ساتھ کچھ نصیحتوں اور کچھ شفقت بھرے پیغامات پر مبنی پند و نصائح کا ایک مجموعہ گویا ہمارے ہاتھ لگا جو ہماری آنے والی زندگی میں ہماری رہنمائی کرتا رہا۔ ہماری زندگی میں آنے والی دوسری آٹوگراف بُک تو واپس ہمارے ہاتھ ہی نہ آئی کیونکہ وہ نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد میں سچن ٹنڈولکر کا آٹوگراف لینے کے لیے گراؤنڈ کے جنگلے کے ساتھ کھڑے چوکیدار کو دی تھی (اس وقت ٹنڈولکر کے کیریئر کا آغاز تھا اور حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم میں دورۂ پاکستان کے سلسلے میں وہ سائیڈ میچ کھیل رہے تھے) یہ تو خیر ہمارے ذاتی تجربات تھے جو تعلیم کے ابتدائی دور میں آٹوگراف بُک کے ساتھ جڑے تھے۔
اب ہم ماضی سے نکل کر حال میں آتے ہیں تو جناب نئی نسل نے تو خود کو آٹو گراف بُک خریدنے کی جھنجھٹ اور اس پر آٹو گراف لینے کی خواہش سے سمجھو کہ آزاد ہی کرلیا ہے کیونکہ اب تو سیلفی کا زمانہ ہے جو آٹو گراف کا متبادل بن گئی ہے بلکہ آٹوگراف بک دکھاتے ہوئے آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا کہ یہ کسی مشہور شخصیت کا ہی آٹوگراف ہے اور آپ اس سے واقعی ملاقات کرچکے ہیں یا یونہی دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے آٹو گراف بک پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر اسے کسی بھی مشہور شخصیت سے منسوب کر دیا۔ لیکن تصویر تو خود بولتی ہے، اور سارا احوال بتا دیتی ہے تاہم جیسے جیسے زمانہ میں جدّت آرہی ہے اب فوٹو شاپ اور دیگر تیکنیک سے من چاہی شخصیات کے ساتھ فیک تصاویر بنانا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے۔
جس طرح پہلے آٹوگراف لینا بہت بڑی کامیابی تصور کی جاتی تھی اسی طرح آج سیلفی لینا بھی کسی کارنامے سے کم نہیں سمجھا جاتا اور پھر سوشل میڈیا پر مختلف پلیٹ فارم کے ذریعے اس کی نمائش کرکے داد وصول کرنے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جو بات سادہ سے آٹوگراف اور اس کے ساتھ لکھے پیغام میں ہوتی ہے وہ آج کی رنگا رنگ تصویر میں عنقا ہے۔ آٹوگراف اتنا مقبول عام ہے کہ ایک مشہور شاعر مجید امجد نے اس پر ایک پوری نظم ہی لکھ ڈالی جس پر مختلف مکاتب فکر کی جانب سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے مگر وہ ایک الگ بحث ہے۔
پہلے کسی مشہور شخصیت سے خواہ وہ کسی بھی شعبے میں نامور ہوتی، اس کے چاہنے والے اس سے دستخط لینے کے لیے بھرپور کوشش کیا کرتے تھے۔ لوگوں کے ہجوم میں مداح کے لبوں سے آٹو گراف پلیز کی آواز ابھرتی۔ پھر وہ ملک کی مشہور ہستی ہو یا دنیا بھر میں مقبول ہو اس کے دستخط کے لیے قلم آگے بڑھا دیا جاتا۔ وہ کھلاڑی ہوتا، اداکار ہوتا، سیاستدان ہوتا یا دیگر شعبے سے تعلق رکھتا ہوتا قلم تھام کر اپنا دستخط ثبت کر دیتا۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا جن کے پاس آٹوگراف بُک نہ ہوتی وہ اپنے کالر، آستین، نوٹ بک، کرنسی نوٹ، رومال حتیٰ کہ ہتھیلی پر آٹوگراف لینے کی کوشش کرتے تھے۔ اب آٹو گراف دینے والا چاہے تو پورا دستخط کرے یا آٹوگراف کے نام پر بے ربط لکیر کھینچ دے یہ اس کی مرضی اور موڈ پر منحصر ہوتا لیکن مداح کے لیے وہ کسی گوہر نایاب سے کم نہ ہوتا بعض تو ایسے پرستار تھے جنہوں نے اپنی آئیڈیل شخصیات کے آٹو گراف کو فریم یا کوٹنگ کراکے محفوظ کرلیا۔ پچھلی نسل کے بہت سے لوگوں کے پاس اپنی اپنی آٹو گراف بک پڑی ہے۔ جس میں ان کے زمانے کی نامور شخصیات کے دستخط موجود ہیں۔ یہ ساری شوق کی باتیں ہیں۔ وہ بھی ایک دور تھا، اب تو سیلفی نے سب کچھ بدل دیا ہے۔
آٹوگراف ادب و ثقافت سے وابستہ ہستیوں کے لیے کیا اہمیت رکھتا تھا اس حوالے سے نامور ادیب اشفاق احمد کی کتاب زاویہ سے اقتباس ملاحظہ کرتے چلیں۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ میں نوجوانوں کی طرح اس عمر میں اپنی آٹوگراف بُک لے کر گھومتا ہوں اور ایسے لوگوں کے آٹوگراف حاصل کرنا چاہتا ہوں جو آسائش اور آسانی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو اداکاروں یا گانے والوں کے آٹوگراف لینے کا شوق ہوتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے آٹوگراف لینے کا خواہشمند ہوں جن پر دنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں۔ میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں اس میں دستخط تو کم لوگوں کے ہیں جب کہ انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں۔ کسی لکڑہارے کا انگوٹھا ہے، کسی ترکھان کا ہے، کسی قصائی کا ہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں۔ ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں آنے والے چھوٹے سے شہر یا منڈی مصطفیٰ آباد للیانی سے لگوایا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بلاتفریق اور بغیر کسی غرض کے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرتے ہیں۔
آٹو گراف کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ آپ کو پاکستان کے نامور شاعر فیض احمد فیض اور شہنشاہ جذبات دلیپ کمار سے متعلق ایک واقعے سے بھی ہو جائے گا۔ یہ آج سے لگ بھگ نصف صدی سے بھی پہلے کی بات ہے جب دلیپ کمار کے عروج کا دور تھا اس وقت پاکستان سے فیض احمد فیض ایک مشاعرے اور ادبی کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت جا رہے تھے تو ان کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے اپنے والد نے فرمائش کی کہ وہ ان کے لیے دلیپ کمار کا آٹوگراف ضرور لے کر آئیں۔ فیض احمد فیض جب دورہ مکمل کرکے بھارت سے واپس آئے اور سلیمہ نے ان سے آٹوگراف کا پوچھا جس پر وہ گھبرا گئے۔ بیٹی نے پوچھا کہ کیا آپ کی وہاں دلیپ کمار سے ملاقات نہیں ہوئی تو فیض احمد فیض نے کہا کہ ایک بار نہیں کئی بار ملاقات ہوئی لیکن اس نے تو مجھ سے خود آٹوگراف لے لیا تو پھر میں کیا اس سے فرمائش کرتا۔
کچھ شوقین ایسے بھی ہیں جن کے آٹوگراف لینے کی انوکھی داستان دنیا بھر میں مشہور ہوجاتی ہے جیسا کہ ہمارے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے ساتھ ہوا جب انہیں ان کی ایک خاتون پرستار نے سوشل میڈیا پر آٹو گراف لینے کے لیے نکاح نامہ پیش کر دیا تھا اور بابر اعظم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس نکاح نامے کی تصویر بھی شیئر کی تھی۔
حالیہ کچھ عرصے میں سیاسی شخصیات کا آٹو گراف خاصامقبول ہوا . جب پی ٹی آئی حکومت جانے کے بعد سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی مقبولیت کا گراف بڑھا۔ اور اسی دوران انہوں نے ملاقات کے لیے آنے والے کم عمر بچوں اور نوجوانوں کو ان کی شرٹس پر آٹو گراف دیے جس کے بعد سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں پی ٹی آئی کے مخالف سیاستدان مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، حمزہ شہباز بھی بچوں اور نوجوانوں کو ان کی شرٹس پر آٹو گراف دیتے نظر آئےاور یہ ٹرینڈ بن گیا تھا۔
آٹو گراف اصل میں انگریزی کا لفظ ہے جو اپنی اصل حالت اور معنوں کے ساتھ ہی اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ آج آٹوگراف کی روایت اتنی ہی زندہ رہ گئی ہے کہ کسی چیریٹی تقریب میں یا سرکاری تقریب میں کھلاڑی، فنکار یا کسی شعبہ زندگی میں نامور شخصیات کے دستخط سے مزین کوئی چیز مہنگے داموں فروخت کرکے اس کو فلاحی کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے جو کہ ایک اچھا مصرف ہے لیکن جو عوامی آٹو گراف ہے وہ کہیں کھوگیا ہے۔