اسلام آباد: تحریک انصاف کے ڈی چوک پر جاری دھرنے کی سنچری مکمل ہو گئی ہے ۔
دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں دھاندلی اور چودہ ماہ تک انصاف نہ ملنے پر پاکستان تحریکِ انصاف نے چودہ اگست سے اسٹریٹ پاور کا چناوٴ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا ۔اس لانگ مارچ کا بنیادی مطالبہ تھا کہ وزیرِاعظم نواز شریف کا استعفی اور عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرائی جائے، لانگ مارچ آغاز سے ہی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا اور تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا ہو پندرہ اگست کی رات ا شہر اقتدار کے آبپارہ چوک میں آ پہنچا ۔
کارکنان کا جوش کسی چیز کو خاطر میں لانے کو تیار نہ تھا، چار دن تک حکومتی خاموشی کے بعد عمران خان نے انیس اگست کو ا پنے ٹائیگرز کو آبپارہ سے ریڈ زون کی جانب بڑھنے کی ہدایت کی، لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد کا اندازہ ہونے کے بعد حکومت نے حکمت عملی تبدیل کی اور مارچ کے شرکاء کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کا فیصلہ کیا، چوبیس دن تک کپتان کے صبح و شام ڈی چوک پر رکھے کنٹینر میں گزرے، اس دوران کپتان کی پُرجوش خطابت حکومت پر بھاری پڑنے لگی۔
بائیس اگست کو سیاسی بحران سے نکلنے کے لئے حکومت نے تحریکِ انصاف سے مذاکرات کا فیصلہ کیا، جسے قبول کرتے ہوئے تحریکِ انصاف نے شاہ محمود قریشی کی صدارت میں کمیٹی قائم کر دی۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کے پندرہ دور ہوئے لیکن معاملہ وزیر اعظم کے استعفی پر اٹکا رہا، جس کے بعد مذاکرات ختم کر دیئے گئے، اسی دوران اپوزیشن کے سیاسی جرگے نے بھی حکومت اور تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور اس امید پر کئے کہ قوم کو جلد خوشخبری سنائیں گے لیکن سیاسی جرگہ نے بھی ہاتھ اٹھا لیے ۔
معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی، آرمی چیف نے رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے اٹھائیس اگست کو عمران خان سے اہم ملاقات کی مگر عمران نواز شریف کے استعفی کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے، اسی دوران حکومت پردباؤ بڑھانے کے لئے لانگ مارچ کے شرکاء نے وزیر اعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی کا فیصلہ کیا تاہم اس فیصلے نے تحریکِ انصاف میں دراڑ ڈال دی ۔
باغی نے ایک بار پھر بغاوت کردی لیکن فیصلہ ہو چکا تھا، تیس اگست کی رات مظاہرین وزیرِاعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے لگے، وزارتِ داخلہ سے احکامات ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری وزیرِاعظم ہاؤس اور مارچ کے شرکاء کے درمیان حائل ہوگئی اور گھمسان کی جنگ شروع ہوئی، رات کے پچھلے پہر شہرِ اقتدار ہوائی فائرنگ اور شیلنگ سے گونجتا رہا۔
اس دوران چار مظاہرین جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ پولیس اہلکار اور صحافی بھی تشدد کا نشانہ بنے۔ حکومتی ایوانوں میں اہم فیصلوں پر غور شروع ہو چکا تھا اور دو ستمبرکو صدر پاکستان نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا، جس میں تمام اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا، حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کے لئے تحریکِ انصاف نے اپنی حکمت عملی مزید تبدیل کی اور احتجاجی تحریک کو ملک کے طول عرض میں پھیلانے کا فیصلہ کیا۔
تحریکِ انصاف نے اکیس ستمبر سے کراچی اور لاہور سمیت میانوالی ، ملتان اور جہلم میں عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جو تا حال جاری ہے۔اس دوران حکومت کی قربانی تو نہ سکی تاہم عید قربان کا دن بھی آیا جب چیئر مین تحریک انصاف عمران خان نے نماز عید ڈی چوک میں ہی ادا کی ۔
حالیہ دنوں میں عمران خان نے وزیرِاعظم کے استعفے کا فیصلہ موخر کرتے ہوئے حکومت سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا اور دھاندلی کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کے قیام سمیت جے آئی ٹی کا مطالبہ کر دیا، جسے حکومت نے تاحال قبول نہیں کیا اب عمران خان نے تیس نومبر کو بھرپور احتجاج کی کال دے کر حکومت کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا ہے۔