تھر: سندھ کے علا قے مٹھی میں لوگوں پر موت کاخوف طاری ہونے لگا۔ آج بھی دو نومولود لقمہ اجل بن گئے۔ اب تک اکیس بچوں سمیت اکتیس افراد موت کی نیند سوچکے ہیں جبکہ پچیس سے زائد بچے زیرعلاج ہیں۔
تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے ایک بار پھر مجرمانہ غفلت اور خاموشی نے تھر کے لوگوں کی جان لینا شروع کردی ہے۔ بھوک اور افلاس کے مارے ان تھر کے باشندوں پر ایک بار پھر موت تاری ہو نے لگی ہے۔ اے آر وائی نیوز کے نمائندے کے مطابق آج دو نومولود بچے نے دم توڑ دیا ہے اور اس کی موت کے ساتھ ہی تھر میں ہلاکتوں کی تعداد اکتیس ہو گئی ہے جن میں اکیس بچے بھی شامل ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو ہلاکتیں مزید ہو سکتیں ہے۔
سندھ کے انتہائی افلاس زدہ علا قے تھر میں موت نے ایک بار پھر بسیرا کر لیا ہے اور یہ اس کے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا ہے اس سے پہلے بھی کئی بار تھر کے باشندوں کو اپنوں کی لاشیں اٹھانا پڑی ہے۔تھر والوں کے اپنوں کی موت کے پیچھے کسی کی دشمنی نہیں بلکہ بھوک و افلاس ہے۔ جہاں موت ملتی ہے بھوک پلتی ہے۔ سندھ میں کئی ایک سیاسی جماعتوں نے حکومت بنائی تاہم تھر کے باشندوں کے بھوک و افلاس کا اعلاج نا کر سکیں۔
تھر وایسوں کی عمر گزرگئی مگر ان باشندوں کی زندگی سے بھوک نہ مٹی۔ نا ہی حکومتوں نے اس بات پر کبھی توجہ دی کہ سندھ کے اس حصے میں اس قدر موت کیوں بٹتی ہے۔ تھر کی بھوک ایسی ہے جو روزانہ جانوں کو نگل لیتی ہے۔ تھر کی زمین بنجر اور بوند بوند کو ترستے تھر کے لوگ جل کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
تھر کے یہ افلاس کے مارے لوگ بس یہ خواب میں ہی دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے بچےزندہ ہیں اور یہ آس رکھتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن تازہ روٹی ان کے بچو کا بھی مقدر ہو گی۔ ریگستان کی تپتی مٹی سےاناج اگے گا۔ کبھی نہ کبھی وہ اپنے بچوں کوروٹی کانوالہ دے کر موت کا لقمہ بننے سے روک سکیں گے۔ یہ تپتا سورج، گرم ریت اوربنجر زمین تاریخ کا حصہ ہیں۔