خوشبو، رنگ اور محبت کی شاعرہ پروین شاکر کی آج 19ویں برسی ہے، انیس برس پہلے آج کے دن ان کا ایک حادثے میں انتقال ہوا تھا۔
پروین شاکر نے کراچی میں جنم لیا، یہیں سے تعلیم اور ملازمت پائی، شاعری اسی شہر میں پروان چڑھی، خوشبو ان کے کلام کی پہلی کتاب جس نے شاید نوجوانوں میں پھرسے کتابوں کے تحفوں کا رواج ڈالا، لڑکی کی زبان سے جرات مند لہجے میں جذبات کا اظہار ان کی غزلوں اور نظموں کا خاصہ بنا۔
پذیرائی اور جدائی اس کی دومثالیں ہیں، جن میں تصویر حقیقت کا روپ دھارتی محسوس ہوتی ہے، بے باک اندازمیں اس طرح دلوں کی باتیں کہہ دینا آسان نہیں ہوتا لیکن پروین نے یہ کر دکھایا، ایسی بہت سی مثالیں ان کے کلام میں جا بجا ملتی ہیں۔
اندھیرے میں بھی مجھے جگمگا ہے کوئی بس ایک نگاہ سے رنگ بدن بدلنے لگا، بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگولیے ناممکن تھا کہ ان کے کلام پر گلوکار طبع آزمائی نہ کرتے، سو مہدی حسن، ٹینا ثانی، تصورخانم جیسے فنکاروں نے ان کا کلام اپنی گائیکی کی زینت بنایا۔
خوشبوکے بعد انکار، خودکلامی، صد برگ ان کی مشہور کتابیں رہیں، ان کا کلام ماہ تمام کے نام سے بھی شائع ہوچکا ہے، جس میں سوائے’’کف آئینہ‘‘ جو ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی تمام کلام شامل ہے، عکس خوشبو سے شروع ہونے والا کلام آج ایک دنیا کو اپنی مہک سے محظوظ کررہا ہے اور تادیر اس کا آہنگ اپنا رنگ جماتا رہے گا۔