گزشتہ دنوں بچے کی نصابی کتب کے لیے اردو بازار جانا ہوا معلوم ہوا کہ مطلوبہ کتابیں کئی ماہ سے مارکیٹ میں نہیں آ رہیں، تعلیمی سال ضائع ہوجانے کے ڈر سے سیکنڈ ہینڈ (پرانی) کتابیں معلوم کیں تو وہ بھی ندارد۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ تلاش کرنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے تو ہمیں بھی ایک دکان پر مطلوبہ کتابیں قدرے بوسیدہ لیکن قابلِ استعمال حالت میں مل گئیں۔ مگر قیمت ان کی نئی کتابوں سے بھی کہیں زیادہ تھی۔ دکان دار نے ہماری مجبوری دیکھتے ہوئے منہ مانگے دام وصول کیے اور پھر بھی کتابیں اس طرح ہمارے حوالے کیں جیسے ہم پر احسان کیا ہو۔ ایسے میں جہاں ہمیں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا وہیں معاشرے میں رائج چور بازاری (جس کو عرف عام میں بلیک مارکیٹنگ کہا جاتا ہے) مزید آشکار ہو گئی اور اچانک یہ خیال آیا کہ عوام کی ان عمومی اعمال کے ساتھ وطنِ عزیز میں ایمان دار قیادت اور حکمرانوں کی چاہت ہماری بے جاخواہش تو نہیں!
یہ کوئی خاص نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے۔ کوئی تہوار ہو یا غیر معمولی اور ہنگامی حالت، جس شخص کا جس چیز پر بس چلتا ہے اس میں اپنے لیے زائد و ناجائز منافع کی راہیں ہموار کر لیتا ہے۔ یوں وہ چور بازاری شروع کر دیتا ہے۔ جن یورپی اور مغربی ممالک کے نظام کو ہم ‘کافرانہ نظام’ کہتے نہیں تھکتے وہاں یہ حال ہے کہ ان کی مذہبی اکثریت کے تہوار جیسے کرسمس، ایسٹر وغیر تو ایک طرف مسلمانوں کا بڑا تہوار عید ہو یا سب سے مقدس مہینہ رمضان وہاں حقیقی معنوں میں ریلیف دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے تہوار کی مناسبت سے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی جاتی ہے تاکہ ان کے معاشرے کا ہر فرد خوشی حاصل کر سکے۔
ہمارا ملک پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا وہاں اس کے برعکس صورتِ حال ہوتی ہے۔ غیر مسلموں کو تو چھوڑیں مسلمانوں کے تہوار عیدین، شبِ براْت اور محرم جیسے میں بھی چشمِ فلک نے یہ منظر نہیں دیکھا کہ اس مناسبت سے اشیاء کی فروخت کے لیے رعایتی اسٹال سجائے گئے ہیں اور دکانوں پر قیمتوں میں نمایاں کمی کی گئی ہو یا منافع کم کر دیا گیا ہو۔ یہ تہوار تو ناجائز منافع خوروں کے لیے گویا ایک نادر موقع ثابت ہوتے ہیں اور ان کی چاندی ہوجاتی ہے اور رعایتی سیل کے بجائے ‘لوٹ سیل’ ہر جگہ نظر آتی ہے۔ رمضان المبارک کے تقدس کا سب سے زیادہ خیال تو ہمارے پھل فروش رکھتے ہیں جو پھلوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیتے ہیں جس کے سبب اس مہنگائی کے دور میں کئی گھرانے اب قدرت کی ان نعمتوں سے محروم رہنے لگے ہیں۔
چند سال قبل ہیٹ اسٹروک کی صورت میں کراچی کے عوام نے گرمی کا جو عذاب سہا اور سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں جب کہ کورونا کی وبا نے بھی پاکستان کو متاثر کیا، تاہم اس میں بھی ناجائز منافع خوری عروج پر تھی اور جب اس کی وجہ سے المیے رقم ہورہے تھے تو ہم نے انسان کی پستی کا وہ عالم دیکھا کہ جب کفن اور قبر بھی مال و زر کی ہوس اور ناجائز منافع خوری کی نذر ہوگئی۔ قبریں کئی ہزار روپے میں فروخت کی گئیں اور کفن کی بھی منہ مانگی قیمتیں وصول کی گئیں جس سے ہماری ایمانداری کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا یہ عام چلن ہوچکا ہے کہ مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں عام کاروباری افراد نجی و سرکاری ملازمین و دیگر لوگ شامل ہوتے ہیں جب کسی ہوٹل یا تقریب میں اکٹھے ہوں اور گپ شپ کر رہے ہوں تو سب مل کر ملک میں رائج بے ایمانی، کرپشن کا رونا روتے ہیں اور تمام برائیوں کی جڑ بے ایمان کرپٹ حکمرانوں کو قرار دیتے ہوئے نیک دل اور ایماندار حکمرانوں کی خواہش کرتے ہیں اور جب وہ دل کی بھڑاس نکال کر اپنے اپنے کاموں پر واپس جاتے ہیں تو سب نہیں لیکن ان میں سے ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی شکل میں کوئی غیرقانونی، ناجائز، دھوکہ دہی پر مبنی کام یا عمل ضرور کررہی ہوتی ہے۔ اگر کاروبار کی بات کریں تو انہی میں سے کوئی دودھ میں پانی ملاتا اور کیمیکل سے اسے گاڑھا کرتا ہے تو کوئی مرچ مسالوں میں ملاوٹ کرکے اپنی جیب بھاری کرنے کے ساتھ مستقبل میں اسپتالوں کے ذرائع آمدن بڑھانے کا بھی سامان کرتا ہے۔ مصنوعی طریقے سے پھلوں کی مٹھاس، مہنگے داموں فروخت، ناپ تول میں کمی، دفاتر میں کام سے زیادہ گپ شپ اور ایسے کئی قابل گرفت کام ہیں جو گنوائے جاسکتے ہیں اور یہ سب خیانت، دھوکے بازی اور قانونی اور اخلاقی جرم ہیں۔ ایسے میں تو یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے جو ہم اکثر سنتے ہیں کہ ’’اس ملک میں شریف صرف وہی ہے جس کو موقع نہیں ملتا۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن اس کا مطلب صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی نہیں بلکہ یہ تھا کہ اپنی زندگیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا اور دنیا کو دکھانا تھا کہ یہ ہے اصل اسلام اور ایسے ہوتے ہیں مسلمان لیکن آج صرف نام کی مسلمانی باقی رہ گئی ہے۔ ہم نے صرف اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور اپنے دین اور اسلاف کی معاشرت اور اس کے سب اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ہم صرف زیادہ سے زیادہ کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور تمام اخلاقی حدود کو پار کر چکے ہیں۔
شاید ایسے ہی نام کے مسلمانوں کے لیے حضرت اقبال ایک صدی قبل یہ ارشاد فرما گئے کہ
ہر کوئی مست مے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
آج یہ حالت ہوچکی ہے کہ دنیا بھر میں گرین پاسپورٹ بے وقعت ہوتا جا رہا ہے اور پاکستانی قوم دنیا میں شک کی نظر سے دیکھی جاتی ہے کیونکہ ہماری اکثریت دنیا بھر میں رائج تمام دو نمبری اپنے اندر سمو چکی ہے اور ایسے کاموں میں ہم استاد ہوچکے ہیں ، ہمارے کاموں سے لگتا ہے کہ دو نمبری ہمارا قومی وظیفہ ہے۔ کوئی ہماری اس خاصیت کا ذکر کرے تو اس پر ہم شرمانے کے بجائے فخر کرتے ہیں۔ ہماری دھوکا دہی کی عادت کی وجہ سے بیرون ملک گرین پاسپورٹ کی کیا عزت ہے اس کا اندازہ حالیہ سروے میں ہوتا ہے جس میں پاکستانی پاسپورٹ کو دنیا کس چوتھا کمزور ترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے اور وجہ سب پر عیاں ہے۔
ہم تو وہ قوم بنتے جا رہے ہیں جو بیرون ملک تو حلال خوراک کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں لیکن پاکستان میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو دھوکے سے صریحاً حرام خوراک مردہ مرغیوں اور بکرے کا ظاہر کر کے گدھے اور کتے کا گوشت تک کھلانے سے گریز نہیں کرتے۔ جو مردہ مرغیوں سے بھرے ٹرک، گدھے اور کتے کا گوشت بیچتے ہیں یہ کوئی بیرونی دنیا یا کسی کافر ملک سے نہیں آتے نہ ہی حکمراں کرتے ہیں بلکہ اسی دیس کے رہنے والوں اور حکمرانوں کے لیے چور لٹیروں کی تسبیح پڑھنے والوں کے کارنامے ہوتے ہیں۔
ہماری بے ایمانی اور چور بازاری صرف کھانے پینے کی حد تک نہیں بلکہ صحت کا شعبہ بھی اس سے آلودہ ہے۔ دو نمبر دوائیں مارکیٹ میں عام مل جاتی ہیں۔ جعلی اسٹنٹ، گردے نکال لینا یہ عام بات ہوچکی ہے۔ ہماری تو عبادتیں بھی ریا کاری سے پُر ہوچکی ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا میں عمرہ اور حج زائرین میں دوسرے نمبر پر آنے والا ملک ایمانداری میں بدترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
آج ہم دھوکا دہی اور ہر برا کام کرتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ اللہ کی رحمتیں ہم پر نازل ہوں، ہمیں ایماندار حکمراں ملیں لیکن یہ خواہش کرنے سے قبل ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ حکمراں کوئی آسمان سے نہیں اترتے بلکہ معاشرے سے ہی نکلتے ہیں اور جب پورا معاشرہ ہی کرپٹ ہو تو پھر اس میں ایمانداری کی چاہت کو دیوانے کا خواب ہی کہا جا سکتا ہے۔
شاعر مشرق نے اپنی قوم کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے کہا تھا کہ
اپنے من مین ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہ بنتا نہ بن اپنا تو بن
اسلامی تعلیمات بتاتی ہیں کہ خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک اسے خود اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو۔ ہم دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں لیکن کبھی خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔
مفسرین کہتے ہیں قرآن میں اللہ نے جتنا کائنات کو تسخیر کرنے اور اس پر غور و فکر کرنے کا حکم دیا ہے اتنا ہی اپنے باطن میں جھانکنے اور اپنا محاسبہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے کیونکہ کائنات کو تسخیر کرنے سے زیادہ مشکل کام خود کو تسخیر کرنا ہے۔ تبدیلی اندر سے ہی آتی ہے۔ اگر کسی نے خود کو تسخیر کر لیا تو اس نے دنیا کو بھی تسخیر کر لیا اور کوئی اپنے باطن کو درست نہ کر سکا تو اس کی ظاہری کامیابی عارضی تو ہوسکتی ہے لیکن دائمی نہیں۔ اور ایسے لوگوں کو کوئی حق نہیں کہ معاشرے میں تبدیلی کی بات کریں اور اپنی بیٹھکوں میں صرف حکمرانوں یا کسی خاص طبقے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔
کسی شاعر نے کہا ہے کہ
اگر اپنے دل پر نہیں حکمراں
مسخر ہو کس طرح سارا جہاں