لندن : برطانیہ میں اپنی نوعیت کا ایک انوکھا عدالتی فیصلہ سامنے آیا ہے جس میں ایک سالہ بچے کا علاج روک کر اسے موت کی نیند سلا دیا گیا، بچے کی ماں آخری وقت تک فیصلے کی مخالفت کرتی رہی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک سالہ بچے آیڈن براق کو گزشتہ روز وسطی لندن کے مشہور گریٹ اورمنڈ اسپتال میں عدالتی حکم کے بعد آکسیجن مشین سے ہٹا دیا گیا۔
ڈاکٹروں نے ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسے وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی، مذکورہ بچہ ایک شدید اور ناقابل علاج اعصابی بیماری میں مبتلا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ایک سالہ بچہ ایڈن براقی جو نیورو مسکولر نامی لاعلاج بیماری کا شکار تھا نے مقامی اسپتال میں اپنے اہلِ خانہ کے درمیان آخری سانسیں لیں۔
بچے کا علاج روکنے کیلئے اسپتال انتظامیہ کی جانب سے لندن ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا، اسپتال کے وکلاء نے عدالت سے درخواست کی کہ اس بچے کا علاج بند کر دیا جائے۔ ان کا مؤقف تھا کہ علاج کے بجائے یہ بات زیادہ بہتر ہے کہ اس کی تکلیف کو کم کرنے کیلئے اسے مرنے دیا جائے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ یہ بچہ دیکھنے، سننے، سونگھنے، محسوس اور لطف اندوز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم اس کا مرض لاعلاج ہے۔
دوسری جانب بچے آیڈن براق کی والدہ نریمان براقی نے عدالت کے روبرو اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ وہ اپنے بچہ کا علاج اور اس کی دیکھ بھال کرسکتی ہے اور "وہ اب بھی مسکراتا ہے”۔
اس کی والدہ نے عدالت کے سامنے کہا کہ وہ بعض اوقات اپنے بیٹے کے ساتھ دن میں تقریباً 16 گھنٹے گزارتی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ اپنے بچے سے "ایسی عقیدت اور پیار کرتی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
عدالت کی جج مسز جسٹس مورگن نے ایڈن کے انتقال کے بعد اپنے فیصلے میں لکھا کہ میں مطمئن ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اگرچہ وہ اپنے خاندان کی موجودگی سے تسلی اور خوشی حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کی بیماری اور اس کے علاج کی تکالیف ان فوائد سے بھی زیادہ ہیں۔”
واضح رہے کہ آیڈن کو اس وقت گریٹ اورمنڈ اسٹریٹ اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جب وہ تقریباً تین ماہ کا تھا اور جمعرات کو اپنی موت تک وہیں داخل رہا۔ اس طرح وہ تقریبا ایک سال کے لگ بھگ وہاں رہا۔