جمعہ, نومبر 1, 2024
اشتہار

سودی نظام کا خاتمہ، کیا ریاست تیار ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

ملک میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ساتھ جو بحث جاری ہے وہ سپریم کورٹ میں اصلاحات سے متعلق کی جانے والی قانون سازی کے گرد گھوم رہی ہے، مگر اس میں سود کے خاتمے کی تاریخ مقرر کر کے بھی ایک سنگِ میل طے کیا گیا ہے۔ آئینی ترمیم میں یہ شامل کیا گیا ہے کہ یکم جنوری 2028ء سے ملک میں سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ گو کہ اس حوالے سے تند و تیز مباحث اور تبصرے نہیں ہو رہے مگر اس قانون سازی پر ملا جلا ردعمل دیا جارہا ہے۔

اسلامی مالیاتی اور معاشی نظام پر سند مانے جانے والے مولانا تقی عثمانی نے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو سوشل میڈیا پر نہ صرف مبارک باد دی بلکہ اسلام آباد میں مولانا کے گھر جاکر انہیں گلے لگایا اور جبہ و دستار پیش کی۔ مگر بعض حلقوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ سود کو دراصل مزید چار سال کے لئے ہمارے اوپر مسلط کر دیا ہے۔ سود کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت نے 19 سال کے بعد جماعت اسلامی کی پٹیشن پر اپریل 2022 میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملک سے سود کے خاتمے کا سال 2027 مقرر کیا تھا۔ پہلے حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر بعد ازاں عوامی اور سیاسی ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ اپیل واپس لے لی گئی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نومبر 2022 میں اس بات کا اعلان کیا کہ حکومت سود کے خاتمے کے شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی جس نے گزشتہ تقریبا دو سال میں بہت سا کام کر لیا ہے۔ اور اب اس کمیٹی کو پہلے سے زیادہ فعال طریقے سے کام کرنا ہوگا۔ مگر کیا حکومت مقررہ وقت تک سودی نظام کو ختم کر پائے؟

وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کے حوالے سے ملک کے ایک نجی بینک کا ذکر بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایک بینک اپنے کاروبار کو جاری رکھتے ہوئے لین دین کو سود سے پاک کر کے اسلامی مالیات پر منتقل کرسکتا ہے تو ملکی نظام کو بھی اس پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ نجی بینک کے شریعہ کمپلائنس اینڈ ایڈوائزی فیصل شیخ کہتے ہیں کہ روایتی اسلامی مالیاتی ادارہ بننے کا فیصلہ سال 2015 میں کیا تھا۔ اس وقت جب یہ فیصلہ کیا گیا تو ہمارے بینک جتنے بڑے حجم کے کسی بینک نے مکمل طور پر اپنے کاروبار کو شرعی مالیاتی ماڈل کے مطابق نہیں اپنایا تھا۔ اور دنیا میں کوئی ایسی مثال بھی موجود نہ تھی کہ جس پر عمل کرتے ہوئے بینک کو شرعی مالیاتی نظام پر منتقل کیا جائے۔ بینک کو جو بھی کام کرنا تھا وہ کام اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ اس مقصد کے لئے بینک انتظامیہ نے نیا سودی قرضہ دینے اور اکاؤنٹ کھولنے پر ایک تاریخ کے بعد پابندی عائد کردی اور پھر بینک نے تمام کھاتے داروں کو تحریری طور پر مطلع کیا کہ ان کے بینک اکاؤنٹس کو روایتی سے اسلامی کھاتوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ سب سے مشکل مرحلہ جاری قرضوں کو اسلامی پر منتقل کرنا تھا۔ پہلے بینک نے تمام شرعی مالیاتی مصنوعات کی تیاری کی اور پھر اپنے کاروباری اور انفرادی قرض لینے والوں کو بالمشافہ اور کئی ملاقاتوں کے دوران روایتی سے اسلامی بینکاری پر منتقل ہونے پر راضی کیا۔ اس میں تقریباً 7 سال لگ گئے اور اسٹیٹ بینک نے جائزہ لینے، آڈٹ کرنے کے بعد مکمل اسلامی مالیاتی بینک کا لائسنس جاری کیا۔

- Advertisement -

اگر ایک بینک کو سودی سے اسلامی نظام پر منتقل کرنے میں 7 سال کا عرصہ لگا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت پاکستان آئندہ چار سال میں سودی معیشت کا خاتمہ کرسکے۔ اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ حکومت کو کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔

سود کا خاتمہ اور غیر ملکی قرضے:
اسلامی مالیاتی نظام کے حوالے سے دنیا بھر میں کام ہو رہا ہے۔ اسلامی ملکوں سمیت متعدد غیر اسلامی ریاستوں نے بھی اسلامی مالیات کے حوالے سے قوانین کا اجرا کیا ہے اور قرض کی عالمی منڈی میں شرعی اصولوں کے مطابق سرمایہ اکھٹا کرنا کوئی اچھوتا عمل نہیں ہے۔ عالمی مالیات مارکیٹس اسلامی فنانس کے حوالے سے معلومات رکھتی ہیں۔ اور کئی ہزار ارب ڈالر مالیت کے قرضے اور سرمایہ کاری اسلامی فنانسنگ کے تحت کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی فنانس کو مختلف بڑے تحقیقاتی ادارے سودی نظام کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

عالمی مالیاتی ادارے جیسا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت تقریبا ہر ادارے میں اسلامی فنانسنگ کی سہولت دستیاب ہے۔ اور مکمل اانفرااسٹرکچر موجود ہے۔ اس لئے اگر پاکستان ان اداروں سے کہتا ہے کہ اسے غیر سودی مالیاتی سہولت درکار ہے تو یہ ادارے ایسی سہولت فراہم کرنے کے قابل ہیں۔

سود پر قرض نہ لینا:
حکومت کو اسلامی مالیاتی نظام کو اپنانے کے لئے سب سے پہلے ایک تاریخ مقرر کرنا ہوگی جس کے بعد حکومت کوئی بھی نیا قرضہ سودی شرائط پر نہیں لے گی۔ یہ وہ پہلا قدم ہے جو معیشت کو غیر سودی بنانے کے لئے اٹھایا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد بھی حکومت کو اپنے جاری قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ مگر سودی قرض بتدریج ختم ہوتا جائے گا اور اس کی جگہ شرعی سہولت لی جائے۔ اس مقصد کے لئے حکومت کو اپنے ان اثاثوں کی نشاندہی کرنا ہوگی جس پر وہ یہ نئی سہولت حاصل کرے گی۔ اس وقت بھی حکومت جو بھی سہولت اسلامی بینکوں سے یا اسٹاک ایکسچینج سے حاصل کررہی ہے وہ صکوک کی مد میں حاصل کررہی ہے۔ جس میں حکومتی اثاثے کو قرض دینے والوں کے نام پر منتقل کر کے اس پر کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔

قانون سازی:
سب سے پہلے سود سے متعلق قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اور یہ کوئی سادہ عمل نہیں بلکہ اس کے لئے 26 ویں آئینی ترمیم سے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ اسٹیٹ بینک اور ملک سے سود کے خاتمے کے لئے وفاقی سطح پر حکومت کو کم از کم 24 قوانین سمیت ہزاروں قواعد کو تبدیل اور از سرِ نو مرتب کرنا ہوگا۔ اسی طرح صوبائی، اور ضلعی سطح پر بھی قوانین اور قواعد کو تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑا قانونی عمل ہو گا جس کے لئے بہت زیادہ محنت، قابلیت و اہلیت اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ مجلسِ شوریٰ کو اس حوالے سے بہت کام سرانجام دینا ہوگا۔

شریعہ بورڈ کا قیام:
حکومت کو سود کے خاتمے اور معیشت کو اسلامی مالیاتی نظام پر منتقل کرنے اور اس پر عمل کرانے کے لئے ایک مستقل شرعی بورڈ بنانا ہوگا۔ اسے وزارتِ خزانہ اور وزارتِ قانون سمیت تقریباً ہر اس وزارت میں قائم کرنا ہوگا جس میں کاروبار اور لین دین ہورہا ہو۔ جیسا کہ بینکوں میں شرعی بورڈ لین دین کے ہر معاملے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسی طرح حکومت کے ہر معاہدے کا جائزہ یہ بورڈ لے گا اور اس کے عین اسلامی ہونے یا نہ ہونے پر اپنی رائے دے گا جس کے بعد یہ معاہدے رو بہ عمل ہوں گے۔

حکومت کو وفاقی صوبائی اور ضلعی سطح کے علاوہ اس سے منسلک اداروں میں ایسے افراد کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہوگی جو کہ اسلامی مالیات کے حوالے سے معلومات رکھتے ہوں۔ اور جو مالیاتی لین دین کی نگرانی کرسکیں۔

ریاست کے مالیاتی اداروں کی اسلامی نظام پر منتقلی:
حکومت کے لئے ایک بڑا کام اپنے مالیاتی اداروں کو روایتی سے اسلامی پر منتقل کرنا ہوگا۔ وفاقی حکومت کو قومی بچت، نیشنل بینک، فرسٹ ویمن بینک، زرعی ترقیاتی بینک کے علاوہ بڑے پیمانے پر انشورنس کمپنیوں کو روایتی نظام سے اسلامی انشورنس یعنی تکافل پر منتقل کرنا ہوگا۔ جس میں نیشنل انشورنس کارپوریشن، پاکستان ری ایشورینس کمپنی، پوسٹل لائف انشورنس، اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی سطح پر بینک آف پنجاب، بینک آف خیبر اور سندھ بینک کی بھی اسلامی مالیاتی نظام پر منتقلی ہوگی۔ اس ایک بہت بڑے اور طویل مدتی کام کا آغاز کرنے اور اسے انجام تک پہنچانے کے لیے بھی بہت سا علمی اور عملی کام کرنا ہوگا۔

حکومتی خزانے کا حساب کتاب:
سودی نظام میں حسابات لکھنے اور ریکارڈ رکھنے کا طریقہ کار اسلامی مالیاتی نظام سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے لئے حکومت کو بحرین میں قائم اکاؤنٹنگ اینڈ آڈٹ آرگنائزیشن برائے اسلامک فنانشنل اسٹیٹیوشنز (ایوفی) Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions (AAOIFI) کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ جو کہ وفاقی حکومت اور اس کی وزارتوں کے اکاؤنٹنگ کے معیار کو روایتی لین دین سے اسلامی پر متنقل کریں گے۔ اسی طرح حکومت کے تمام ذیلی ادارے، اتھارٹیز سمیت تقریبا ہر دفتر میں اسلامی مالیات کے ماہرین کی موجودگی ضروری ہوگی جو وہاں‌ خدمات فراہم کریں گے۔

اس جائزے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں اس بڑے، پیچیدہ، اور طویل مدتی کام کو انجام دینے لئے حکومت کو اسی تندہی اور تیزی سے کام کرنا ہوگا جس طرح حکومت نے 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے اقدامات کیے ہیں۔ اگر اس میں تساہل سے کام لیا گیا تو سودی نظام کا مکمل خاتمہ اس کے لئے مقرر کی گئی تاریخ تک ممکن نہیں ہوگا۔

Comments

اہم ترین

راجہ کامران
راجہ کامران
راجہ کامران سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

مزید خبریں