پیر, اکتوبر 28, 2024
اشتہار

27ویں آئینی ترمیم میں کیا ہو سکتا ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

ابھی 26 ویں آئینی ترمیم کی گرد بیٹھی بھی نہیں اور نہ ہی اس سے پیدا ہونے والے چیلنجز پر قابو پایا جاسکا ایسے میں حکومت 27 ویں آئینی ترمیم لانے کیلیے پر تول رہی ہے۔

اس حوالے سے ذرائع کے مطابق گزشتہ روز شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں اتفاق کیا گیا کہ 27 ویں آئینی ترمیم بھی لائی جائے گی اور اس سلسلے میں تمام تر کوششیں بروئے کار لائی جائیں گی۔

دونوں شخصیات نے مذکورہ ترمیم پر پارلیمنٹ کو متحرک کرنے اور مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم و دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا اور ترمیم کیلئے ایک بار پھر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے پر مشاورت کی گئی۔

- Advertisement -

اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں میزبان ماریہ میمن نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے موجودہ صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی اور اہم سوالات کھڑے کردیے۔

انہوں نے کہا کہ مختصر وقفے کے بعد کل سے ایک بار پھر اسلام آباد میں سیاسی جوڑ توڑ شروع ہوگا، رانا ثناءاللہ سمیت حکومت کی دیگر شخصیات نے 17ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے متعلق فیصلے کے واضح اشارے دیے ہیں۔

دوسری جانب اس بار جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27ویں آئینی ترمیم لانے کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا راستہ روکنے کیلیے شدید ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔

اس حوالے سے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں جے یو آئی اور پی ٹی آئی نے بھی آپس میں رابطے کرلیے اور پہلے کی طرح اس بار بھی پی ٹی آئی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے 26 ویں آئینی ترمیم کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ حکومت یہ ترمیم کیوں لانا چاہتی ہے؟ کیونکہ کچھ ایسے نکات ہیں جس کی وجہ سے آئینی بینج نہیں بن سکتا۔

انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 191اے کے مطابق آئینی بنچوں میں نامزدگی اور تعین جوڈیشل کمیشن کو کرنا ہے۔ آرٹیکل 175اے (ون)کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں آئینی بینچوں کے سب سے سینئر جج یا ججوں کو شامل کرنا ضروری ہے جو ابھی بننا باقی ہیں۔

ماریہ میمن نے کہا کہ یہ ایک سنگین خامی ہے جس سے نہ نیا جوڈیشل کمیشن بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی آئینی بینچ مقرر کیا جاسکتا ہے جب تک پارلیمنٹ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس شق میں ترمیم نہ کرے۔

ایک اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا 27ویں آئینی ترمیم میں ممکنہ طور پر ملٹری کورٹس کے حوالے سے ترمیم کی جاسکتی ہے؟ اس کے علاوہ کیا کوئی ایسی بھی تجویز زیر غور ہے کہ جس میں ایک بار پھر سے آئینی بینچ کی جگہ آئینی عدالت بنانے کی کوشش کی جائے گی؟۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا 27ویں آئینی ترمیم میں ججز کی سنیارٹی لسٹ پھر سے تبدیل کی جارہی ہے؟ کہ جس کی مدد سے جسٹس یحییٰ افریدی سے سینئر ججوں کو سائیڈ پر کردیا جائے؟۔

اس کے علاوہ کیا ایک بار پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم لائی جائے گی، جس میں چیف جسٹس، سینئر ترین جج اور آئینی عدالت کے سربراہ کمیٹی میں شامل ہوں گے؟۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا 27ویں آئینی ترمیم میں سندھ میں بلدیاتی نظام میں فنڈز کی ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے چیزیں بھی شامل ہوسکتی ہیں؟

ماریہ میمن نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اس بار بھی اپنی کوشش میں کامیاب ہوپائے گی یا نہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں