پیر, جولائی 1, 2024
اشتہار

ورلڈ کپ کہانی، دوسرا عالمی کپ 1979، وہ ریکارڈ بنا جو آج تک نہ ٹوٹ سکا

اشتہار

حیرت انگیز

پہلے ورلڈ کپ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ہر چار سال بعد عالمی کپ منعقد کرانے کا فیصلہ کیا جس کا دوسرا ایڈیشن 1979 میں منعقد ہوا۔

اتفاقی طور پر ٹیسٹ کرکٹ سے جنم لینے والی ایک روزہ کرکٹ کی سنسنی اور نتیجہ خیزی نے کرکٹ شائقین کو اپنا ایسا گرویدہ بنایا کہ صرف 18 ایک روزہ میچز کے انعقاد کے بعد پہلا ون ڈے ورلڈ کپ 1975 میں منعقد کرایا گیا جس کا فاتح ویسٹ انڈیز رہا جب کہ اولین ورلڈ کپ کی شہرہ آفاق مقبولیت کو دیکھتے ہوئے عالمی کرکٹ کونسل نے ہر چار سال بعد ایک روزہ عالمی کپ منعقد کرانے کا فیصلہ کیا جس کے تحت 1979 میں دوسرا عالمی کپ منعقد ہوا۔

تاہم دوسرے عالمی کپ میں بھی کچھ نہیں بدلا۔ سر زمین وہی کرکٹ کی جنم بھومی انگلینڈ کا ملک رہا جب کہ ٹرافی ایک بار پھر ویسٹ انڈیز کے نام رہی البتہ کچھ ٹیموں نے اپنی کارکردگی میں مزید بہتری پیدا کی جس میں پاکستان بھی شامل رہا اور ٹورنامنٹ کا سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا جب کہ اس ورلڈ کپ میں ایسا ریکارڈ بنا جو آنے والے اب تک کے ورلڈ کپ میں کوئی نہ توڑ سکا ہے۔

- Advertisement -

میگا ایونٹ انگلینڈ میں 9 سے 23 جون تک منعقد ہوا جس میں پہلے ورلڈ کپ کی طرح 15 روز میں فائنل سمیت 15 مقابلے منعقد ہوئے۔ 8 ٹیموں نے شرکت کی جنہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ تاہم اس بار آئی سی سی کوالیفائنگ راؤنڈ میں سری لنکا کے ساتھ کینیڈا نے کوالیفائی کیا جس کے باعث شمالی افریقہ کا پتہ صاف ہوا اور کینیڈا نے ورلڈ کپ میں انٹری دی۔

ورلڈ کپ کے لیے جو دو گروپ تشکیل دیے گئے ان میں گروپ اے میں دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کے ساتھ نیوزی لینڈ، بھارت اور سری لنکا جب کہ گروپ بی میں گزشتہ ورلڈ کپ کی رنر اپ آسٹریلیا کے ساتھ پاکستان، انگلینڈ اور کینیڈا کی ٹیمیں شامل تھیں۔

ورلڈ کپ 1979 کے میچز کی حسب سابق 6 مقامات نے میزبانی کی اور ہر گروپ کی دو ٹاپ ٹیموں نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ تاہم فائنل دیکھنے والے تماشائیوں کی تعداد گزشتہ فائنل سے کم یعنی 25 ہزار رہی جس کی وجہ کرکٹ میں عود آنے والی نجی لیگ کیری پیکر کی سرگرمیاں بھی تھیں جس میں شرکت کے لیے کئی صف اول کے کھلاڑیوں نے اپنی اپنی قومی ٹیموں کی نمائندگی بھی چھوڑ دی جس کی وجہ سے تقریباً ہر ٹیم کو نئے کھلاڑیوں کو میدان میں اتارنا پڑا جس کی وجہ سے ورلڈ کپ کی گہما گہمی متاثر ہوئی۔

دوسرے عالمی کپ کے لیے پاکستانی اسکواڈ:

دوسرے میگا ایونٹ میں پاکستان کی قیادت حسب سابق آصف اقبال نے ہی کی جب کہ انہیں عمران خان، ظہیر عباس، ماجد خان، صادق محمد، ہارون رشید، وسیم راجا، جاوید میانداد، وسیم باری ، سرفراز نواز ، مدثر نذر اور سکندر بخت کی خدمات حاصل تھیں۔

ورلڈ کپ 1979 میں بننے والے کچھ دلچسپ مثبت اور منفی ریکارڈ:

دوسرے ورلڈ کپ کے سیمی فائنلز سمیت کئی میچز انتہائی سنسنی خیز رہے اور پل پل بدلتی صورتحال نے شائقین کرکٹ کو بھرپور متوجہ رکھا۔

پہلے ورلڈ کپ کی طرح دوسرے میگا ایونٹ میں بھی افتتاحی میچ بھارت نے ہی کھیلا تاہم حریف بدل گیا تھا اور سامنے دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز تھا جس نے یہ میچ با آسانی 9 وکٹوں سے جیت کر ٹورنامنٹ کا فاتحانہ آغاز کیا اور پورے ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہتے ہوئے دوسری بار ٹرافی اپنے نام کی جب کہ انگلینڈ بھی ناقابل شکست رہا۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ نے دو دو میچز جیتے۔ سری لنکا اور آسٹریلیا نے ایک ایک میچ جیتا جب کہ بھارت اور کینیڈا فتح کا مزا چکھے بغیر ایونٹ سے باہر ہو گئیں۔

گزشتہ ایونٹ میں تمام میچز ہارنے والی کوالیفائر ٹیم سری لنکا نے بھارت کو 47 رنز سے شکست دے کر ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا اپ سیٹ کیا جب کہ بھارت گروپ میں اپنا کوئی بھی میچ نہ جیت سکی جس کی وجہ سے اس کی فائنل فور تک رسائی کی خواہش کو شدید دھچکا پہنچا اور وہ گزشتہ ایونٹ کی طرح پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہوگئی تاہم پاکستان نے آسٹریلیا کو غیر متوقع شکست سے دوچار کر کے پہلی بار ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں رسائی حاصل کی۔

ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر 1455.4 اوورز کرائے گئے جس میں بولرز نے 205 بلے بازوں کو پویلین بھیجا جب کہ بیٹرز کی جانب سے مجموعی طور پر 5168 رنز بنائے گئے یعنی ہر میچ میں اوسطاً 344.5 رنز اسکور کیے گئے۔

ایونٹ کی پہلی سنچری اسکور کرنے کا اعزاز دفاعی چیمپئن گورڈن گرینج کو حاصل ہوا جنہوں نے بھارت کے خلاف یہ اعزاز حاصل کیا جب کہ پہلی نصف سنچری انگلش کھلاڑی گراہم گوچ نے بنائی۔ کالی آندھی کے ٹاپ آرڈر بیٹر ویوین رچرڈ 138 رنز کی سب سے بڑی انفرادی اننگ کھیلنے والے بلے باز رہے جب کہ آسٹریلیا کے ایلن ہرسٹ نے کینیڈا کے خلاف 21 رنز کے عوض 5 وکٹیں حاصل کرکے بہترین بولنگ کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔

ویسٹ انڈیز کے گورڈن گرینج 253 رنز اور مائیک ہینڈر 10 وکٹوں کے ساتھ بیٹنگ اور باؤلنگ میں ایونٹ کے ٹاپ بیٹر اور بولر رہے جب کہ پاکستانی وکٹ کیپر وکٹوں کے عقب میں 7 شکار کرنے کے ساتھ سر فہرست رہے۔ گزشتہ عالمی کپ کی نسبت اس ورلڈ کپ میں بیٹرز اپنا زیادہ رنگ نہ جما سکے اور پورے ایونٹ میں صرف دو سنچریاں اور 27 نصف سنچریاں ہی بن سکیں۔

گروپ اے سے دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز نے 5 اور نیوزی لینڈ نے 4 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا سری لنکا اور بھارت باہر ہوئے جب کہ گروپ بی سے پاکستان اور انگلینڈ نے فائنل فور میں انٹری دی گزشتہ ورلڈ کپ کی رنر اپ آسٹریلیا دو میچز ہارنے کے بعد سیمی فائنل تک بھی رسائی حاصل نہ کر سکی اور ایونٹ سے باہر ہو گئی۔

نو آموز کینیڈا ہر ٹیم کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئی۔ پاکستان اور انگلینڈ نے 8، 8 وکٹوں سے زیر کیا تو آسٹریلیا نے 7 وکٹوں سے بازی ماری جب کہ انگلش ٹیم کے مقابلے میں تو کینیڈا کی ٹیم صرف 45 رنز کے اس وقت تک کے ون ڈے کے کم ترین اسکور پر ڈھیر ہوگئی تھی۔

ورلڈ کپ 1979 کے چند دلچسپ میچز:

16 جون کو ویسٹ انڈیز کے خلاف نیوزی لینڈ 32 رنز کے معمولی رنز کے فرق سے ہارا جب کہ اسی تاریخ کو لیڈز میں پاکستان انگلینڈ کے خلاف جیتا ہوا میچ ہار گیا میزبان ٹیم کو 165 پر محدود کرنے کے بعد پاکستان 34 رنز کے معمولی اسکور پر 6 وکٹیں گنوا چکا تھا اور گرین شرٹس کی بڑی شکست یقینی نظر آتی تھی تاہم اس موقع پر کپتان آصف اقبال کے 51 جب کہ وسیم راجا اور عمران خان کے 21، 21 رنز کی بدولت قومی ٹیم دوبارہ میچ میں واپس آئی لیکن آخری وقت میں دباؤ برداشت نہ کر سکی اور پوری ٹیم 4 اوورز قبل 151 رنز پر آوؐٹ ہو کر صرف 14 رنز سے یہ میچ ہار گئی۔

ورلڈ کپ کے گروپ میچز کے علاوہ دونوں سیمی فائنلز دلچسپ اور اعصاب شکن رہے تاہم فائنل یکطرفہ ثابت ہوا۔

پہلا سیمی فائنل:

ورلڈ کپ 1979 کا پہلا سیمی فائنل 20 جون کو مانچسٹر میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا گیا جو اپنی سنسنی خیزی اور پل پل بدلتی ڈرامائی صورتحال کے باعث برسوں تک شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں تازہ رہا کیونکہ نیوزی لینڈ کی شدید مزاحمت کے بعد انگلینڈ یہ میچ صرف 9 رنز سے جیتنے میں کامیاب رہی۔

انگلش ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 60 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 221 رنز بنائے جواب میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کی جانب سے ہدف کا تعاقب کیا گیا اور ایک مرحلے پر نیوزی لینڈ کی جیت یقینی دکھائی دیتی تھی تاہم آخری لمحات میں انگلینڈ نے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے کیوی بلے بازوں کو چلتا کیا اور کیوی ٹیم مقررہ اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 212 رنز تک محدود رہی یوں انگلینڈ کی ٹیم نے 9 رنز سے فتح حاصل کرکے فائنل جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ انگلش کھلاڑی گراہم گوچ 71 رنز بنا کر مین آف دی میچ رہے۔

دوسرا سیمی فائنل:

دوسرا سیمی فائنل دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز جس کا اس وقت کرکٹ کی دنیا میں کالی آندھی کے نام سے ڈنکا بج رہا تھا کا مقابلہ پاکستان سے ہوا اور یہ میچ بھی کرکٹ کی تاریخ کے اچھے میچوں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں ہار جیت سے قطع نظر دونوں ٹیموں میں جیت کی بھوک نظر آئی۔

یہ میچ بھی 20 جون کو اوول کے کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا گیا۔ دفاعی چیمپئن نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 60 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 293 رنز بنائے۔ موجودہ کرکٹ میں یہ اسکور بہت بڑا تصور نہیں کیا جاتا تاہم اس وقت 294 رنز کے ہدف پہاڑ جیسا تھا جس کو حاصل کرنے کے لیے گرین شرٹس نے اپنی بھرپور کوشش کی۔

ایک وقت میں پاکستان اس میچ میں جیتنے والی پوزیشن میں تھا اور اس کی 176 رنز پر صرف ایک وکٹ ہی گری تھی لیکن پھر کالی آندھی نے کرافٹ اور ویون رچرڈز کی تباہ کن بولنگ کی بدولت پاکستان کی آخری 9 وکٹیں 74 رنز کے اندر حاصل کر لیں۔

دونوں نے بالترتیب ظہیر عباس، ماجد خان، جاوید میانداد، آصف اقبال، مدثرنذر اور عمران خان کی اہم وکٹیں حاصل کرکے 43 رنز سے یہ اعصاب شکن سیمی فائنل جیت لیا۔ مین آف دی میچ 73 رنز کی اننگ کھیلنے والے گورڈن گرینج رہے۔

اب باری تھی میگا ایونٹ کے سب سے بڑے مقابلے یعنی فائنل کی۔ انگلینڈ کی کارکردگی اور سیمی فائنل میں سخت مقابلوں کے بعد شائقین کرکٹ فائنل بھی دلچسپ ہونے کی توقع کر رہے تھے لیکن

فائنل مقابلہ:

دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز اور میزبان انگلینڈ کی ٹیمیں لارڈز کے میدان میں 23 جون کو فائنل مقابلے کے لیے میدان میں اتریں تو شائقین کرکٹ کی ہمدردیاں اور پوری سپورٹ ہوم ٹیم کے ساتھ تھی لیکن انگلش ٹیم اس کا فائدہ نہ اٹھا سکی اور فائنل یکطرفہ ثابت ہوا۔

ویسٹ انڈیز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 60 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 286 رنز اسکور کیے۔ جو گزشتہ ورلڈ کپ کے فائنل میں کالی آندھی کے اسکور سے پانچ رنز کم تھا۔ 1975 کے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز نے فائنل میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 291 رنز بنائے تھے۔

ویوین رچرڈز نے ناقابل شکست 138 اور کولس کنگ نے 86 رنز بنائے۔ 287 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلش ٹیم کا آغاز انتہائی سست رہا انگلینڈ کے اوپنرز جیفری بائیکاٹ اور مائیک بریرلی نے 39 اوورز میں 129 رنز کا سست ترین آغاز فراہم کیا۔ دونوں نے بالترتیب 57 اور 64 رنز کی اننگز کھیلیں۔

اس کے بعد ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بولر جوئیل گارنر نے تباہی مچا دی اور آخری 11 گیندوں پر 5 انگلش بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھا کر کپتان کلائیو لائیڈ کو ایک بار پھر ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔

وہ ریکارڈ بنا جو آج تک نہ ٹوٹ سکا:

کلائیو لائیڈ نے 1979 میں دوسری بار ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھائی تو وہ مسلسل دوسرا عالمی کپ جیتنے والے پہلے کپتان بنے اور یہ ریکارڈ 44 سال گزر جانے کے باوجود اب تک قائم ہے۔ آسٹریلیا گو کہ 5 بار اور بھارت 2 بار ون ڈے کا عالمی چیمپئن رہ چکا ہے لیکن ہر بار نئے کپتان نے ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھائی۔

 اس کے لیے عمران عثمانی کی کتاب ’’ورلڈ کپ کہانی‘‘ سے بھی مواد لیا گیا ہے۔

جاری ہے

Comments

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں