تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

پاکستان میں 3 لاکھ 50 ہزار بچے آٹزم کا شکار، وزیر اعلیٰ سندھ کا خصوصی پارک بنانے کا اعلان

کراچی: ’آٹزم کے چیلنجز اور اس کا حل‘ کے عنوان سے کراچی کے ایک نجی ہوٹل میں منعقدہ سیمینار میں ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں 3 لاکھ 50 ہزار بچے آٹزم کا شکار ہیں، سیمینار میں وزیر اعلیٰ سندھ نے خصوصی بچوں کے لیے پارک مختص کرنے کا بھی اعلان کیا۔

تفصیلات کے مطابق کراچی میں پاکستان سینٹر فار آٹزم کے سیمینار میں ڈاکٹر غفار بلو نے بتایا کہ پاکستان میں 3 لاکھ 50 ہزار بچے آٹزم کا شکار ہیں، جب کہ کراچی میں آٹزم کے شکار بچوں کی تعداد تقریباً 40 ہزار ہے۔

ڈاکٹر عالیہ نے آٹزم کے شکار بچوں کے حوالے سے سیمینار کے شرکا کو آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ آٹزم کے شکار بچے سوشلائزڈ نہیں ہوتے اور نہ ہی بات کر پاتے ہیں، تاہم جیسے ہی آٹزم میں مبتلا بچوں یا کچھ بڑے بچوں کی تھراپی ہوتی ہے تو وہ ٹھیک ہونا شروع ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ تھراپی کی ٹریننگ والدین کی بھی ہوتی ہے جو بہت ضروری ہے، آٹزم میں مبتلا بچوں کو تعلیم، تفریح اور کام میں حصہ لینے کے لیے اُن کی تربیت ضروری ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آٹزم اور خصوصی بچوں کے لیے پارک مختص کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا سندھ حکومت نے آٹزم اورخصوصی بچوں کے حوالے سے کام کیا ہے، ہم نے قوانین بھی بنائے ہٰیں اور ان پر عمل درآمد بھی کرائیں گے، خصوصی بچوں کے ان قوانین میں تمام تر آگاہی موجود ہے، نہ صرف خصوصی افراد کے حقوق کی پامالی پر قانون سازی کی گئی ہے بلکہ ان کی خلاف ورزی پر سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ حکومت نے باقاعدہ ایک ڈپارٹمنٹ آف امپاورمنٹ آف پرسن وتھ ڈِس ایبلیٹیز قائم کیا ہے، سندھ حکومت کے 66 سینٹرز اس سلسلے میں پرائیویٹ سیکٹرز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا ’’فنڈز ہمارا مسئلہ نہیں ہے، ہمارا اصل مسئلہ تربیت یافتہ عملہ اور کام کرنے والے لوگ ہیں، آٹزم اور دیگر معذوریوں کے شکار بچوں کو معاشرے کا کارگر حصہ بنانے کے لیے ماہرین ہماری رہنمائی کریں، پرائیویٹ ادارے ریسورس کے طور پر ہمیں استعمال کریں اور حکومت انھیں فنانشل سورس دے گی۔‘‘

ڈاکٹر غفار بلو نے کہا کہ ہمارے ہاں لوگوں اور ڈاکٹرز میں بھی آٹزم کے حوالے سے آگاہی کا فقدان ہے، اگر بچہ ڈھائی سال کی عمر تک پہنچ کر بات نہیں کرتا تو کچھ مسئلہ ضرور ہے، بچہ اگر اپنی عمر کے ساتھ ساتھ بات نہیں کرتا تو اس کا چیک اپ کروانا چاہیے، بچے کی حرکت ٹھیک نہ لگے تب بھی چیک اپ لازمی ہے، تھراپی اگر صحیح وقت پر شروع کی جائے تو بچہ بہتر ہو سکتا ہے۔

Comments

- Advertisement -