ہفتہ, نومبر 30, 2024
اشتہار

مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ہم سے جدا ہوئے 52 سال ہوگئے

اشتہار

حیرت انگیز

مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 52 ویں برسی آج ملک بھر میں انتہائی عقیدت واحترام اور قومی جذبے کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

جناح پونجا وہ خوش نصیب باپ ہیں کہ جہان اُن کے بیٹے محمد علی جناح برصغیر کے عظیم مسیحا کے طور پر سامنے آئے وہیں اُن کی بیٹی فاطمہ جناح عملی طور اپنے بھائی کے مشن پر اُن کے ساتھ شامل رہیں۔

فاطمہ جناح 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں وہ قائد اعظم محمد علی جناح سے 17 سال چھوٹی تھیں لیکن قائد کی دیکھ بھال اور اُن کے سیاسی مشن کو پورا کرنے کے لیے قدم قدم پر قائد کے ساتھ ہمراہ رہیں۔

- Advertisement -

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح، قائداعظم محمد علی جناح کی بہن ہی نہیں بلکہ ان کی فکری وراثت کی بھی امین تھیں، محترمہ کی زندگی کا بیش ترحصہ اپنے عظیم بھائی کی رفاقت میں بسر ہوا،وہ تحریک پاکستان میں مشغول اپنے بھائی کی دیکھ بھال کے لیے ہر وقت اُن کے ساتھ رہتیں۔

وہ صرف اپنے بڑے بھائی کی ضروریات کا خیال ہی نہیں رکھتی تھیں بلکہ اُن کے سیاسی مشن کی تکمیل میں معاون ومددگار بھی ثابت ہوئیں،محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے مسلم لیگ کے خواتین ونگ کو منظم کیا اور مسلم لیگ کا پیغام خواتین کے ذریعے گھر گھر پہنچایا۔

قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کے آخری انیس برس تو ایسے تھے جب محترمہ فاطمہ جناح ، لمحہ بہ لمحہ اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھیں،یہ وہ وقت تھا جب تحریک پاکستان اپنے منطقی انجام کی جانب رواں دواں تھی۔

قائد اعظم کے ساتھ طویل رفاقت کے باعث محترمہ کے مزاج اور برتاؤ میں قائد اعظم سے کافی مماثلت پائی جاتی تھی، وہی جذبہ خدمت عوام، وہی جرات و بے باکی اور وہی یقین محکم جو بھائی کی خصوصیات تھیں، قدرت نے بہن کو بھی ودیعت کردی تھیں۔

خاتون پاکستان نے برصغیر کا شہر بہ شہر دورہ کرکے مسلمان عورتوں میں ایک نئی زندگی پیدا کردی اور یہ محترمہ کی مساعی کا ہی نتیجہ تھا کہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں مسلمان عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ قابل تعریف خدمات انجام دیں۔

محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے دوش بدوش 1936ء میں ہی خدمت قوم و وطن کا بیڑا اٹھا لیا تھا تاہم قائد اعظم کی اہلیہ سے علیحدگی کے بعد سے محترمہ فاطمہ ہر آن قائد کے ہمراہ رہتیں اور ان کی صحت کا خیال رکھتیں، اندرون ملک دوروں کے دوران بھی وہ قائد کے ہمراہ ہوتیں۔

تقسیم ہند کے بعد ایک نئی مملکت کا قیام جس میں وسائل نہایت قلیل جبکہ مسائل پہاڑ کی مانند تھے اور پھر قائد اعظم کی تیزی سے بگڑتی صحت نے قوم وملت کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا اس دوران محترمہ فاطمہ جناح ہی تھیں جنہوں نے نہ صرف قائد کی تیمارداری اور دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی بلکہ قوم و ملت کے حوصلوں کو بھی بلند رکھا۔

قیام پاکستان کے محض ایک سال بعد ہی قائد اعظم کی وفات نے قوم کے حوصلے پست کر دیے تھے اور دشمنوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ علیحدہ اسلامی ریاست کا خواب ایک سال بعد بھی چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے ایسے موقع پر ایک بار پھر محترمہ نے قوم کے جذبوں کو اپنی تقاریر سے جِلا بخشی۔ قوم کو دوبارہ سے قائد کے پیغام پر یکجا کیا اور اُن میں نئی روح پھونکی۔

اس حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح نے مسلسل جدوجہد کی اور وہ مختلف مواقع پر قوم سے مخاطب بھی ہوتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف قومی دنوں اور تہواروں کے مواقع پر ریڈیو پاکستان سے بھی عوام سے خطاب کیا۔ اس سلسلے کا آغاز قائداعظم کی زندگی میں ہی ہوچکا تھا۔

ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ اور محترمہ کی تقاریر کے ایک نایاب مجموعے گلبانگ حیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی پہلی تقریر 5 نومبر 1947ء کو نشر ہوئی تھی۔ قائداعظم کی زندگی ہی میں محترمہ فاطمہ جناح کی دوسری تقریر 28 مارچ 1948ء کو ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے نشر ہوئی تاہم محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی رحلت کے بعد ریڈیو پاکستان سے جو پہلی تقریر نشر کی اس کی تاریخ نشریہ27 ستمبر 1948ءتھی۔

ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی تقاریر کا یہ سلسلہ جاری رہا اور یوم آزادی، یوم وفات قائداعظم اور عیدالفطر کے مواقع پر محترمہ فاطمہ جناح اپنی نشری تقریروں کے ذریعے قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں، ان تمام تقاریر اور بیانات کے مسودے محترمہ کی تقاریر کے پہلے مجموعے گلبانگ حیات میں محفوظ ہیں۔

صرف اتنا ہی نہیں جب خاتون پاکستان کو لگا کہ پاکستان میں جمہوری عمل کو خطرہ لا حق ہے تو وہ دوبارہ میدان عمل میں نکلیں اور انہوں نے ملک بھر میں جلسے کرکے ڈکٹیٹرز کو للکارا، پوری قوم ایک بار پھر محترمہ کی آواز پر لبیک کرتے ہوئے جوق در جوق اُن کے قافلے میں شامل ہونے لگے۔

سازشی عناصر نے محترمہ کو الیکشن میں تو کامیاب نہ ہونے دیا لیکن عوام کے دل سے محترمہ کو محبت کو نکال سکے، یہی وجہ ہے کہ 9 جولائی 1967ء کو جیسے ہی محترمہ کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی تیزی سے پھیلی عوام دھاڑے مارتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے، ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دل غمزدہ۔

عوام کی والہانہ عقیدت کے مدنظر حکومت نے محترمہ کی وصیت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور محترمہ کی تدفین اُن کے بھائی قائد اعظم کے پہلو میں کی، عوامی سطح پر خاتون پاکستان کہلانے والی محترمہ فاطمہ جناح کو سرکاری سطح پر مادر ملت کے لقب سے نوازا گیا۔

یوں قائد اعظم محمد علی جناح کی نظریاتی ساتھی و رفیقہ زندگی میں بھی قائد کی ہمراہ رہیں اور مرنے کے بعد بھی اپنے بھائی کے پہلو میں دفن ہوئیں جہاں ان کی قبر مبارک سیاسی جدو جہد کرنے والے کارکنوں اور تحریک پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں ملک کو تعمیر کرنے والوں کے لیے مرجع خلائق ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں