تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وادیٔ سوات کے وہ مقامات جہاں سیاحت کے لیے جانا چاہیے

اگر آپ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے تنگ ہیں اور تھوڑا سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ایک بیگ تیار کر کے سیاحتی مقامات کی سیر کو نکل جائیں۔

اب آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ سیاحت کے لیے کس علاقے جایا جائے، جہاں کم خرچ میں قدرتی نظاروں اور تازہ ہوا سے محظوظ ہوسکیں۔ آپ میں سے بہت سارے لوگ اس سے پہلے پاکستان کے سیاحتی مقامات گھوم بھی چکے ہوں گے مگر بہت سارے مقامات اب بھی ایسے ہیں جہاں شاید آپ نہ جاسکیں ہوں۔

اے آر وائی نیوز نے پاکستانی سیاحت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے  ایک نیا سلسلہ شروع کیا، جس میں ہر آپ کو ہر تھوڑے دن میں کسی وادی کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ آگاہی دیں گے تاکہ آپ وہاں جاکر پاکستان کے خوبصورت مقامات کو دیکھ سکیں۔

آج ہم جس وادی کی بات کررہے ہیں، وہ خیبرپختونخواہ کے ضلع مالا کنڈ میں واقع ہے، جسے ہم سوات  کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک دور میں سوات میں سیکیورٹی کے حوالے سے بہت مسائل تھے مگر پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر کے اُس علاقے کی رونقوں کو اب دوبارہ بحال کردیا ہے جہاں اب سالانہ ہزاروں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح جاتے اور مختلف مقامات پر تفریح کرتے ہیں۔

سوات کا سفر اگر آپ ہوائی جہاز سے کریں گے تو پرواز پشاور کے باچا خان ایئرپورٹ پر اترے گی اور اگر ریل گاڑی سے جانا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس دو راستے (آپشن) ہوں گے، پہلا یہ کہ آپ کراچی سے تقریباً تیس گھنٹے سفر کر کے  پشاور اسٹیشن پہنچے اور دوسرا یہ کہ آپ کراچی سے روانہ ہوکر راولپنڈی کے اسٹیشن پر اتر جائیں۔

پشاور اترنے کے بعد سوات پہنچنے کے لیے آپ کو وہاں سے پبلک کوچز مل جائیں گی جبکہ اگر اپنی پرائیوٹ گاڑی کر کے جانا چاہیں تو یہ سہولت بھی دستیاب ہوگی۔

راولپنڈی اسٹیشن پر اترنے کے بعد آپ کو پیر ودھائی اڈے سے مینگورہ اور بحرین جانے والی کوسٹر ملیں گی، جو شام 6، رات 9 اور گیارہ بجے اڈے سے روانگی اختیار کرتی ہیں، ان کا کرایہ ایک ہزار روپے کے اندر ہے، جبکہ یہاں سے بھی آپ پرائیوٹ گاڑی کر کے مینگورہ جاسکتے ہیں، جس کا تقریباً کرایہ 8 ہزار روپے تک بنے گا۔

پشاور سے سوات کا راستہ 198 کلومیٹر ہے، جو تقریباً تین گھنٹے میں طے کیا جاسکتا ہے جبکہ راولپنڈی سے یہ مسافت 237 کلومیٹر کے قریب بنتی ہے، جسے طے کرنے میں تقریباً ساڑھے تین گھنٹے لگتے ہیں۔

اگر آپ راولپنڈی سے سوات سفر کرنا چاہتے ہیں تو رات کا وقت بہت مناسب ہوگا کیونکہ ٹریفک کا دباؤ نہیں ہوتا اور مسافت جلدی طے ہوجاتی ہے، کوچ والا اس راستے کے دوران کسی ہوٹل کر آدھے گھنٹے کے لیے گاڑی روکے گا تاکہ اگر کسی مسافر کو حاجت ہے تو وہ فارغ ہوجائے ۔

راولپنڈی سے سوات کے لیے ایم فائیو پر سفر کرنا  ہوتا ہے،  ٹنل بننے سے قبل مالاکنڈ سے مینگورہ پہنچنے میں چار گھنٹے لگتے تھے اور مسافر خوفزدہ بھی بہت ہوتے تھے کیونکہ یہ ایک ہی سڑک تھی جہاں دو طرفہ ٹریفک چلتا تھا مگر اب پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت سرنگ تعمیر کی گئی ہے، جس کے بعد راستہ ڈیڑھ گھنٹہ کم ہوگیا ہے۔

ٹنل کی طرف جانے کے لیے پہاڑ کاڑ کر راستہ بنایا گیا ہے، جس پر گاڑی جاتے ہی پہلی بار جانے والے مسافر تھوڑا سہم جاتے ہیں جبکہ کچھ کو متلی بھی محسوس ہوتی ہیں، پانچ سے دس منٹ کے بعد یہ راستہ ختم ہوگا تو ٹنل شروع ہوجائے گی، جسے دیکھ کر آپ اپنا موبائل کھول کر ویڈیو ضرور ریکارڈ کریں گے۔ (جیسا ہر سال جانے والے سیاح بھی کرتے ہیں)۔

ٹنل سے نکلنے کے بعد گاڑی مینگورہ بس اڈے پہنچے گی، اگر آپ راولپنڈی سے رات گیارہ بجے روانہ ہوئے تو وہاں پہنچنے کے  کچھ دیر بعد اذان ہوجائے گی اور اگر 9 بجے روانگی اختیار کی تو تقریبا ساڑھے بارہ بجے کا وقت ہوگا۔

مینگورہ پہنچنے کے بعد آپ کے پاس آگے جانے کے لیے راستے ہوں گے،یہ علاقہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہاں سے دائیں طرف بحرین، کالام، ہوشو، گلیشیئر وغیرہ کے مقامات ہیں جبکہ مالم جبہّ، گبینہ جبّہ، گرین چوک،  فضا گٹ بھی ہے۔

 اگر چاہیں تو مینگورہ کے ہوٹل میں قیام کریں  اور یہاں سے اپنے بجٹ کو دیکھ کر نجی یا عوامی گاڑی میں مالم جبّہ کی طرف روانہ ہوجائیں،  جہاں پہاڑی راستوں پر گاڑی ساڑھے تین گھنٹے چلنے کے بعد ریزوٹ پر پہنچے گی، یہ مقام سطح سمندر سے تقریباً 9 ہزار 200 فٹ بلند ہے جبکہ یہاں پر کنڈول جھیل بھی ہے۔

فضا گٹ پر ایک پارک بھی ہے، جہاں مغربی طرف دریائے سوات بہہ رہا ہے، جس میں ٹائر ٹیوب والی کشتیاں چلتی ہیں جبکہ یہاں بچے آپ کو پانی میں کود مار کر اپنی مہارت بھی دکھاتے نظر آئیں گے، اس پارک کو سولر سسٹم پر بنایا ہوا ہے۔

مینگورہ سے بحرین کے لیے اگر باغ ڈیری روڈ سے جائیں گے تو یہ 60 کلومیٹر کا راستہ ہے، جہاں ایک گھنٹے پچیس منٹ کی ڈرائیو کر کے  پہنچا جاسکتا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ میں مسافروں کے حساب سے وقت دو گھنٹے سے زیادہ بھی لگ سکتا ہے، راستے میں آپ کو لہلاتے کھیت، جھرنے، آبشار اور پہاڑ نظر آئیں گے۔

وادیٔ کوہستان

بحرین پہنچنے کے بعد اگر آپ کا منہ کالام کی طرف ہے تو سیدھے ہاتھ کی طرف سے دریا کا شور سنائی دے گا، جہاں ایک گلی میں جب آپ داخل ہوں گے تو پانی کے اوپر مقامی انجینئرز کا تیار کردہ لوہے کا مضبوط پُل نظر آئے گا، یہ اس قدر مضبوط ہے جہاں سے روزانہ گاڑیوں کی آمد و رفت بھی ہوتی ہے۔

بحرین سے کالام جاتے ہوئے دائیں ہاتھ پر پہلے کیدام کا علاقہ آئے گا، جہاں آپ پہاڑ چڑھ کر پہنچے تو اس سے اوپر ایک خوبصورت علاقہ گورنائی کے نام سے موجود ہے، کالام کا راستہ طے کرتے ہوئے دائیں ہاتھ پر آپ کو کالام کی طرف سے دریا بہتا نظر آئے گا، گزشتہ دو سالوں میں جدید انداز سے سڑک بن جانے کی وجہ سے اب یہاں کا سفر بہت مزیدار ہوگیا ہے۔

دائیں اور بائیں طرف پہاڑوں پر مقامی لوگوں کے گھر ہے، ہر پہاڑ پر ایک خاندان جدی پشتی آباد ہے، ان کو مختلف نام دیے گئے ہیں۔

عام طور پر ان علاقوں میں سیاحوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی البتہ اگر آپ وہاں کے کسی مقامی سے بات کریں اور اُسے یقین دہانی کرائی تو وہ اپنے ساتھ آپ کو لے جاسکتا ہے، جہاں آپ ہائیکنگ کر کے سیاحتی دورے کو مزید خوشگوار بناتے ہیں۔

اس کے بعد دائیں ہاتھ پر منکیال کا علاقہ آتا ہے، جہاں سے ایک دشوار گزار خطرناک راستہ طے کر کے آپ جابہ پہنچتے ہیں، یہاں سرسبز میدان ہیں اور سفید رنگ کا  خان آف سوات کا محل بھی ہے، چار گھنٹے کا دشوار گزار راستہ طے کرنے کے بعد آپ جس علاقے ’جابہ‘ پہنچنتے ہیں، اسے وہاں کے مکین سوات کا سب سے خوبصورت یا یوں کہہ لیں کہ سوئٹزر لینڈ قرار دیتے ہیں، یہاں عام گاڑی نہیں بلکہ مخصوص جیپ جاتی ہے، اس علاقے تک عام سیاحوں کا پہنچنا بہت مشکل ہے۔

منکیال سے گزرنے کے بعد اگلا علاقہ لائی کوٹ کا آئے گا، جہاں دائیں ہاتھ پر آپ کو ایک بڑا پتھر پہاڑ میں اٹکا ہوا نظر آئے گا۔ علاقہ مکین بتاتے ہیں کہ وہ سالوں سے اس پتھر کو ایسے ہی دیکھتے  آرہے ہیں۔

راستے میں آپ کو سڑک پر پانی کے دھارے بہتے نظر آئیں گے، جن میں سے کچھ میں پائپ یا بوتلیں لگی ہوں گی، پائپ یا بوتل اس بات کی نشانی ہے کہ یہ پینے کے استعمال والا پانی ہے، بقیہ سیوریج کا پانی ہوتا ہے۔

کالام پہنچنے سے قبل آپ کو ہوٹل ، دکانیں اور گھما گہمی نظر آئے گی اور اُس سے قبل ایک چیک پوسٹ بھی ہے، یہاں پہنچ کر آپ اگر اگلے سفر سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو یہی قیام کریں اور اگلی صبح اوشو جنگل، آبشار، مہوڈنڈ اور سیف اللہ جھیل کی طرف روانہ ہوسکتے ہیں۔

ماہوڈنڈ جھیل اور راستے کے خوبصورت مسحور کن مناظر آپ کی طبیعت کو توانا کردیں گے۔

اوشو سے پہلے بائیں ہاتھ پر ایک کھلا میدان ہے، جسے مقامی لوگ بند کلی کے نام سے پکارتے ہیں، یہاں پر شام کے وقت بچے اور نوجوان کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ اس میدان سے تھوڑا سا آگے دائیں ہاتھ پر ایک راستہ وادیٔ کمراٹ کی طرف جارہا ہے، جہاں پر جانے کے لیے آپ کو نجی گاڑی ہی کرنا ہوگی۔ وادی کمراٹ کی کٹورہ جھیل، مشہور آبشار کو سیاح دیکھ کر مسحور ہوجاتے ہیں۔

عام طور پر سیاح کمراٹ کا دشوار گزار سفر کر کے کالام واپس آتے اور پھر روانگی پکڑتے ہیں، آپ اگر وہاں تک پہنچ گئے ہیں تو دائیں ہاتھ پر ایک راستہ گجر گبرال کی طرف جارہا ہے۔

یہاں راستے میں آپ کو ایک جھیل نظر آئے گی، جسے مقامی لوگ ’دھماکا جھیل‘ کہتے ہیں کیونکہ یہ دھماکے کے بعد حادثاتی طور پر وجود میں آئی، جس کی گہرائی کا کسی کو بھی اندازہ نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ جتنی بلندی کا سفر کریں گے درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے سردی کا احساس ہوگا اور پانی اُس قدر ٹھنڈا ملتا رہے گا۔ شام ڈھلتے ہی یہاں پر درجہ حرارت بہت کم ہوجاتا ہے۔

دھماکا جھل سے گزرنے کے بعد آپ کالام سے نظر آنے والے پہاڑوں کے پیچھے ہیں، یہاں بھی راستے میں بہت سارے دلکش مقامات آئیں گے اور اگست میں آلو کی فصل کاشت ہوئی ملے گی، گجر گبرال پہنچنے  کے بعد یہاں آپ کو پیچھے پہاڑ اور سامنے قریب میں دریا نظر آئے گا۔

یہاں سے آگے شاہی باغ، خرخڑی جھیل ہے، آپ تھوڑی سی ہمت کر کے یہاں جائیں تو شاید دیگر علاقوں کی خوبصورتی کو بھول جائیں گے۔

عام طور پر سیاح صرف کالام، اوشو جنگل، مہو ڈنڈ، مالم جبہ ہی گھومتے ہیں، جبکہ یہاں کئی ایسے مقامات ہیں، جہاں اگر تھوڑے بہت انتظامات کیے جائیں تو سیاحوں کی بڑی تعداد جاسکتی ہے۔

وادیٔ سوات کے تمام علاقوں کے لوگ مہمان نواز ہیں جہاں وہ آپ کو نہ صرف استقبال کریں گے بلکہ اگر کوئی مشکل ہوئی تو آگے بڑھ کر بغیر کسی غرض کے مدد بھی کریں گے۔

مذکورہ علاقے بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں سالانہ برفباری ہوتی ہے، اگر آپ جون میں پہنچیں گے تو برفباری شاید نہ مل سکے مگر پہاڑ پر کہیں کہیں برف نظر آئے گی، اگر آپ خوبصورتی دیکھنا چاہتے ہیں تو جولائی اور اگست کے مہینے بہت بہترین ہیں کیونکہ یہاں کے پہاڑوں پر ہریالی ہوتی ہے اور دریا کے پانی کا بھاؤ تیز جبکہ راستے بھی کھلے ملتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -
عمیر دبیر
عمیر دبیر
محمد عمیر دبیر اے آر وائی نیوز میں بحیثیت سب ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں