تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

بحیرہ روم میں کشتی الٹنے سے 57 افراد ہلاک

طرابلس : لیبیا کی سمندری حدود میں ایک بار پھر تارکین وطن کی کشتی الٹ گئ جس کے نتیجے میں 57 افراد کی ڈوب گئے۔

تفصیلات کے مطابق مسافر بردار کشتی الٹنے کا واقعہ افریقی ملک لیبیا کے قریب بحیرہ روم میں پیش آیا، جہاں کشتی وزن زیادہ ہونے کے باعث سمندر برد ہوگئی۔

ڈوبنے والی کشتی میں 75 تارکین وطن سوار تھے اور ریسکیو اہلکاروں نے 18 تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچالیا جنہیں لیبین کوسٹ گارڈ کے حوالے کردیا گیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ واقعہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے کچھ فاصلے پر کھلے سمندر میں پیش آیا، جس پر ریسکیو عملے نے کشتی میں سوار 18 افراد کو بچالیا جبکہ دیگر سمندر برد ہوگئے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مرنے والوں میں 20 خواتین اور 2 بچے بھی شامل ہیں جب کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد نائجیریا، گھانا اور گمبا کے شہریوں کی تھی۔

متاثرہ افراد بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ جارہے تھے تاہم راستے میں ہی لقمہ اجل بن گئے، ایک ہفتے کے دوران مہاجرین سے بھری سے کشتی الٹنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے، گزشتہ بدھ کو بھی تارکین سے بھری کشتی سمندر برد ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں 20 مسافر ہلاک ہوگئے تھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ رواں برس پہلے چھ ماہ کے دوران 7 ہزار تارکین وطن کو غیرقانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے جنہوں نے سمندر کے راستے یورپی ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔

فورسز نے 7 ہزار مہاجرین کو گرفتار کرکے واپس لیبیا بھیج دیا تھا جہاں انہیں زبردستی مہاجر کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔

اس سے قبل بھی بہتر مستقبل کی خاطر غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی خواہش میں سیکڑوں یا ہزاروں مہاجرین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

Comments

- Advertisement -