بین الاقوامی طور پرسراہے جانے والے معروف صوفی قوال اور گائیکی کی دنیا میں اپنا الگ مقام بنانے والے نصرت فتح علی خان کی آج 68 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے وہ 17 اگست 1997 میں لندن میں انتقال کر گئے تھے۔
حضرت داتا گنج بخش کے مزار کے یوں تو کئی فیوض عام ہیں جس کا مظہر بند آنکھوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے، اسی ولی اللہ کے مزار میں گونجنے والی ایک آواز کو وہ’’ نصرت‘‘ حاصل ہوئی جس نے فنِ قوالی میں نہ صرف اپنا لوہا منوایا بلکہ دنیا بھر میں صوفی ازم کی شناخت بنے۔
ذکر ہورہا ہے معروف قوال اور گائیک نصرت فتح علی خان کی، جنہیں داتا گنج بخش کی ’’نصرت نے وہ ’’ فتح‘‘ دلائی جو کم ہی گائیکوں کے نصیب میں آئی۔
’’دم مست قلندر مست مست‘‘ سے لوگوں کو سحر میں جکڑنے والے اس کلاکار کی پیدائش 13 اکتوبر 1948 کو فیصل آباد میں ہوئی،آپ نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد سے حاصل کی اور پھر سُر اور لے میں ایسا کھوئے کہ پہچھے مُڑ کر نہ دیکھا۔
’’علی دا ملنگ میں تے علی دا ملنگ‘‘ کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والا یہ گلوکار کامیابیوں کی سیڑھیاں چلتا رہا اور معرفت کے اوج کمال ’’اللہ ہو اللہ‘‘ سے حاصل کیا،نازخیالولی کے سوال ’’تم ایک گورکھ دھندہ ہو‘‘ کو پڑھنے والے نصرت فتح علی خان علامہ اقبال کے ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ میں پناہ ڈھونڈتے نظرآتے ہیں۔
حفیظ جالندھری کا شہرہ آفاق نوحہ ’’یہ بالیقیں حسین ہے‘‘ سے سینہ عزادار کے سینوں کو چیرنے والے نصرت فتح علی خان حب اہل بیت نبھاتے نظرآتے ہیں تو کہیں ’’ہلکا ہلکا سرور‘‘ دلاتے ہین اور حسن جانان کی تعریف میں آفریں آفریں کی گردان لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔
عروج کمال ہے یہ کہ زمین و مکان کی سرحدوں سے آزاد نصرت فتح علی خان پڑوسی ملک سمیت دنیا بھرکے اُن حصوں میں بھی سنے،سمجھے اور گائے جاتے ہیں،جہان اردو سمجھی نہیں جاتی اور قوالی کو کوئی جانتا نہیں۔
موسیقی کی دنیا کا یہ ’’رشک قمر‘‘ اور’’نور نظر‘‘ 125 سئ زائد آڈیو البم ریکارڈ کروانے والا واحد گلوکار بن جاتا ہے جو کم و بیش ہر ہی مزاروں میں پڑھا جاتا اور ہر بڑی فلم میں گایا جاتا ہے۔
نصرت فتح علی خان کی ایک حمد ’’وہ ہی خدا ہے‘‘ کو بھی بہت پذیرائی ملی جب کہ ایک ملی نغمے ’’میری پہچان پاکستان‘‘ اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے گایا گیا گیت ’’جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم‘‘ آج بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کیے بیٹھے ہیں۔
محض 49 سال کی عمر میں وہ گردے کے عارضے میں مبتلا ہوگئے اور بیرون ملک دوران علاج ہی خالق حقیقی سے جا ملے یوں’’کسے دا یار نہ وچھڑے‘‘ کی تمنا رکھنے والے نصرت فتح علی خان ہم سب سے ہمیشہ کے لیے بِچھڑ کر جہان فانی سے کوچ کر گئے۔